counter easy hit

دھرنا سیاست پہ سوال

عطائ الحق قاسمی

عمران خان کے غیر منطقی رویوں کی وجہ سے وہ حلقے بھی اب ان سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو اپنے دل میں ان کے لئےنرم گوشہ رکھتے تھے ۔ڈیلی ٹائمز میں راجہ عمر شبیر نے اس حوالے سے کچھ اہم سوال اٹھائے ہیں ۔قارئین کی دلچسپی کے لئے اس انگریزی کالم کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کی نمائندہ حکومت کا کچھ ہونے یا نہ ہونے سے تعلق بن تو رہا ہے ۔ وہ یوں کہ عمران خان نے اسلام آباد میں 30اکتوبر کو ایک تازہ، گو دوسرے دھرنے کا اعلان کیا ہے عمران خان، نواز شریف کے خلاف اس تحریک کی رہنمائی کریں گے جس میں وہ ایک دفعہ پھر نواز شریف سے عوام کے سامنے جوا ب دہ ہونے کا مطالبہ کریں گے ۔ ایسا کرنے کے لئے وہ اسلام آباد کو اس حد تک ساکت وجامد کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں جس کے جواب میں گورنمنٹ یا تو طاقت کے استعمال پہ مجبور ہو جائے گی یا دوسری صورت میں وہ عمران خان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی ۔ پچھلی دفعہ خان صاحب نے تحریک کا آغاز تو مضبوطی سے کیا تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ وہ بے صبرے پن کا شکار ہوگئے اور مایوسی کے عالم میں وہ سول نافرمانی پہ اتر آئے تھے ۔ بھلا وہ منظر کوئی کیسے بھلا سکتا ہے جس میں خان صاحب اپنے چیدہ چیدہ پارٹی رہنمائوں کے ساتھ کنٹینر پہ سوار یوٹیلٹی بلز نہ صرف خود نذر آتش کر رہےتھے بلکہ پورے ملک کے عوام کو ایسا کرنے کا مشورہ دے رہے تھے ۔ اس سلسلے میں خان صاحب اس حد تک بے لچک ہو گئے تھے کہ خود اپنے لئے ان کے پاس سیاست کرنے کی بہت کم جگہ باقی رہ گئی تھی ۔ نتیجتاً 27روز کی بے مقصد محنت کے بعد عوام کو مطمئن کرنے کے لئے ان کے پلے کافی سے بھی بہت کم تھا ۔
پچھلی دفعہ یا پہلی دفعہ کی مانند اس دفعہ بھی خان صاحب کی نیت پہ قانوناً سوال اٹھتا ہے یہاں یہ کہنا یا پوچھنا عین برمحل ہے کہ کیا وہ یہ سب اپنے جائز جمہوری حق کے تحت کریں گے یا وہ ریاست کے نظم ونسق کو قائم رکھنے کے معاملے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گے ؟خان صاحب کی دو ہری سیاست جسے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کہنازیادہ مناسب ہو گا ایک ایسی چالاکی ہے جس کے تحت ایک طرف تو وہ عوام کو قائل کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی سیاست ایک جمہوری اکائی ہے اور رہے گی جبکہ دوسری جانب وہ عوام کو سڑکوں پر لاکر حکومت کو خطرے کا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔ ملک میں سیاسی توازن کو قائم رکھنا حکومت کی خواہش ہے اور وہ اس پہ عمل پیرا رہنے کی تگ ودو میں ہے۔ یہ یوں بھی ہر حکومت کی شدید خواہش ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ اگر عمران خان  بفرض محال 30 اکتوبر کے بعد حکومت میں آ جاتے ہیں تو وہ بھی اس ماحول میں بے حد نرمی چاہیں گے جو وہ ان دنوں گرم رکھے ہوئے ہیں، مگر کیا وہ ایسی صورت میں ان سے بھلائی کی توقع رکھنے میں حق بجانب ہوں گے جس کے لئے وہ آسانیاں مہیا کرنے کیلئے ہرگز رضامند نہیں ؟
عمران خان کی دھرنا سیاست جس کا محور کرپشن کے خلاف تحریک ہے اگر کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ ایسے نتائج ضرور سامنے لائے گی جن کی خان صاحب نے کبھی خواہش نہ کی ہو گی۔ سب سے بڑا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ اس صورت میں عوام کی توجہ کا مرکز حکومت کی کارکردگی کی بجائے ، کرپشن بن جائے گی۔ تب فوری طور پر تحریک انصاف کے اندر کرپشن کی موجودگی گرما گرم بحث کا باعث بن جائے گی ۔ پارٹی کے اندرونی انتخابات اس کا بہت بڑا اور ناقابل تردید ثبوت ہیں یہ وہ حقیقت ہے جسے عمران خان نے تسلیم کیا ہوا ہے ۔ لہٰذا ان کا یہ دعویٰ کہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ ہر کرپٹ سیاست دان کا احتساب کریں گے، خود ان کے اپنے گلے کی ہڈی بن جائے گا کیونکہ کرپشن کی صفائی کی زد میں تحریک انصاف کے اعلیٰ عہدیدار بھی آئیں گے ۔ دارالحکومت کی تالہ بندی اور سقوط غیر ملکی سرکاروں پر پاکستان میں سرمایہ کاری کا عمل جمہود کی سی کیفیت کا شکار ہو جائے گا ۔ کئی سالوں پہ محیط پیشہ ورانہ طور پر مختلف اربوں ڈالر کے منصوبوں پہ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہوئے یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ اور برطانیہ کے کسٹمرز پاکستان میں استحکام کی موجودگی پہ انگلی اٹھاتے نظر آتے ہیں دھرنے کے طول پکڑنے کی صورت میں صرف ایک ہی پیغام باہر کی دنیا کو جائے گا وہ یہ کہ کوئی بھی ، کبھی بھی ، اٹھ کر دارالحکومت اسلام آباد کو ساکت و جامد کر سکتا ہے ۔ ہمیں یہ ضرور سمجھنا چاہئے کہ آج کی دنیا میں منصوبوں کی تکمیل کے لئے ہنرمندوں کا حصول کوئی بڑی بات نہیں رہ گئی ، چنانچہ کسی بھی ایسے ملک سے جسے سرمایہ کار اپنے لئے محفوظ نہ سمجھ رہے ہوں اپنے منصوبے وہ کسی دوسرے ملک میں باآسانی منتقل کر سکتے ہیں ظاہر ہے ہم پاکستان کے لئے ایسا کچھ نہیں پسند کریں گے ۔
تحریک انصاف اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لئے اپنے پیٹی بند بھائیوں یعنی پاکستان عوامی تحریک کی جانب بھی دیکھ رہی ہے تاہم پاکستان عوامی تحریک کا اپنے کارکنوں کو سڑک پہ نہ لانا زیادہ سمجھ میں آنے والی بات اس لئے ہے کہ وہ ایک مذہبی رنگ رکھنے والی جماعت ہے اس کا پاکستان میں کوئی ووٹ بینک نہیں، ناکامی کی صورت میں اس کے مرکزی رہنما کسی نقصان کا سامنا کئے بغیر واپس کینیڈا روانہ ہو جائیں گے۔ جبکہ یہ صورتحال تحریک انصاف کے حسب حال نہیں انہیں اس صورت میں اپنے ووٹروں کے شدید غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ایک حقیقت جس کا کریڈٹ بہرحال عمران کو جاتا ہے وہ یہ کہ جوانی کے ناخوشگوار تجربات کی بنا پر جب وہ اپنی کشش کھونا شروع کر چکے تھے انہوں نے سیاست کے میدان میں آکر کھویا اعتماد دوبارہ حاصل کیا لیکن پھر ان کی سیاسی  تربیت نچلے درجے والوں کے ہاتھ میں آ گئی ، چنانچہ اپنے سیاسی مخالفوں کو برے ناموں سے پکارنا، ان پہ آوازے کسنا، عمران خان کا امتیازی نشان بن گیا۔ اور پھر قومی اداروں کوسرعام ہدف تنقید بنانا بھی ان کا طرہ امتیاز ٹھہرا،
نواز شریف کی برطرفی کو عمران خان سب برائیوں کا علاج قرار دیتے ہیں اگر نواز شریف اگلے ماہ مستعفی ہو جاتے ہیں تو کیا خان صاحب ان سب برائیوں کو دور کر سکیں گے جن کا وہ تذکرہ کئے جا رہے ہیں ؟ سپن بائولنگ کے ڈاکٹر صاحب ان بیماریوں کا کیا علاج تجویز کریں گے؟
یہ عین قومی مفاد میں ہے کہ عمران خان آئندہ انتخابات تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں وہ پاکستان مسلم  لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی ماضی میں کی گئی غلطیوں کو نہ دہرائیں وہ ان نتائج پہ پہنچنے سے گریز کریں جو ان کے لئے سیاسی شکست فاش کا باعث بن جائیں۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website