اللہ تعالی نے بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں لیکن کچھ نعمتوں سے محروم بھی کردیا ہے۔ یہ بات شاید درست نہیں، اصل بات یہ ہے کہ خود ہم کفرانِ نعمت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مثلاً میری ایک بہت شدید خواہش ہے کہ میں جدید بستی کے بجائے اندرون شہر کے تین مرلہ گھر میں رہائش اختیار کروں اور گرمیوں میں بند کمرے میں اے سی چلا کر سونے کے بجائے مکان کی چھت پر سوئوں۔ مجھے وہ دن یاد ہیں جب ہم سب بہن بھائی گرمیوں میں سرِشام چھت پر چلے جایا کرتے تھے، ساتھ رات کا کھانا بھی ہوتا تھا۔ چھت پر آنے سے پہلے تپتے فرش پر پانی کا چھڑکائو کیا جاتا تھا۔ وسیع وعریض چھت پر چارپائیاں بچھا دی جاتی تھیں۔ ہم رات کو مچھروں سے بچنے کے لئے مسہری لگا کر سوتے تھے۔ اُس وقت تک وزیر آباد میں بجلی نہیں آئی تھی لیکن دریائے چناب سے آنے والی ٹھنڈی ہوائیں ہمیں تھپک تھپک کر سلادیتی تھیں۔ ہم جدید نسلوں میں رہنے والوں نے بہت عرصے سے کھلا آسمان نہیں دیکھا۔ یہ آسمان مجھے بہت ہانٹ کرتا تھا۔ میں بستر پر لیٹ کر گھنٹوں تاروں بھرا آسمان دیکھتا رہتا، میرے لئے اُس سے زیادہ خوبصورت منظر اور کوئی نہ تھا۔ مجھے لگتا تھا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے آسمان کو ستاروں سے سجایا ہے، چنانچہ میں نیند پر اُس خوبصورت منظر کو ترجیح دیتا، اُس زمانے میں بیٹری سے چلنے والا ریڈیو وزیر آباد تک پہنچ چکا تھا۔ ہمارے گھر میں ’پائی‘ کمپنی کا بہت خوبصورت ریڈیو موجود تھا لیکن ہمیں گانے سننے کی اجازت نہ تھی، صرف تلاوت اور دینی پروگرام سن سکتے تھے لیکن اللہ بھلا کرے ہمسایوں کا کہ رات کو اُنہوں نے چھت کی دیوار پر اپنا ریڈیو رکھا ہوتا، جہاں سے ریڈیو اسٹیشن مظفر آباد سے گانوں کی فرمائش کا پروگرام چل رہا ہوتا اور یوں ہم ایسے جملہ مومنین اُس سے فی سبیل اللہ مستفید ہوتے۔ رات کے کسی پہر جب اچانک بارش آجاتی تو اردگرد کی ساری چھتوں سےنیند میں ڈوبی ہوئی آوازیں سنائی دینے لگتیں اور پھر چارپائیاں گھسیٹ کر برساتی کے نیچے دھکیلنے کا شور سنائی دینے لگتا، برسات کے موسم میں چارپائیوں کو ’کاٹروں‘ پڑ جاتی تھی، یعنی اُن کی ایک ٹانگ اوپر کو اٹھ جاتی تھی، چنانچہ اگلے روز اُس کی کاٹروں ٹھیک کرنے کے لئے چار جوان اُس کے چاروں پایوں کی جانب بٹھائے جاتے، جن کے بوجھ سے اُس کی ساری اکڑفوں نکل جاتی۔
مجھے یقین ہے کہ میرے دور کا وزیر آباد اور اُس کی چھتیں اندرون لاہور اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی موجود ہیں، چنانچہ میں لاہور کے بھاٹی یا لوہاری گیٹ میں کرائے کا مکان لے کر اُس میں رہنا چاہتا ہوں، جس کی ایک بیٹھک ہوگی، جس کا دروازہ گلی کی طرف کھلتا ہوگا، شہروں میں یہ بیٹھکیں ہی ڈرائنگ روم ہوتی ہیں۔ یہ گھر کا حصہ ہوتے ہوئے بھی گھر سے الگ تھلگ ہوتی ہیں، چنانچہ شام کو جیرا پہلوان، پروفیسر مسعود، انجینئر طارق، مولوی اسماعیل اور رفیق سیٹھی کسی ایسی ہی بیٹھک میں جمع ہوتے ہیں اور بین الاقوامی سیاست کے ماہرین اُن کے تجزیے سن لیں تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔ اُن شہروں میں کسی کے گھر جو بھی پک رہا ہوتا ہے اُس کی خوشبو تمام گھروں تک پہنچتی ہے چنانچہ ڈشوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ اندرون شہر کی کسی شادی پر کسی زمانے میں گلی بہت بارونق ہوتی تھی۔ گلی میں ٹینٹ لگادیا جاتا تھا اور اہلِ محلہ میں سے کوئی اُس پر ناک بھوں نہیں چڑھاتا تھا، بیرا گیری کے فرائض دلہا یا دلہن کے کزن ادا کرتے۔ وہ دیگ سے ٹینٹ میں بیٹھے مہمانوں تک ایک قطار بنا لیتے اور بڑی پھرتی سے کھانے کی ڈشیں آگے بڑھاتے رہتے۔ دیگ پر کسی بہت ذمہ دار فرد کو بٹھایا جاتا۔ یہ اُس کے لئے اعزاز کی بات ہوتی۔ اُسے اندازہ ہوتا کہ پلائو اور قورمہ کس تناسب سے مہمانوں تک پہنچانا ہے، چنانچہ جب وہ دیکھتا کہ کھانا کم پڑنے لگا ہے تو وہ ہاتھ کھینچ لیتا اور کفایت شعاری کو اپنا شعار بنا لیتا۔ شادی بیاہ میں شریکوں نے بھی کوئی نہ کوئی وجہ بنا کر جھگڑنے کی صورت پیدا کرنا ہوتی تھی، گھرانے کا سربراہ اُن سے بھی بڑی دانائی سے نمٹ لیتا اور جہاں تک مرگ کا تعلق ہے، محلے کے تمام لوگ جنازے کے ساتھ بعض اوقات میلوں پیدل چل کر جنازہ گاہ تک جاتے۔ یہ جنازہ جدھر جدھر سے گزرتا سامنے سے آنے والی ٹریفک احتراماً کچھ دیر رک کر آگے کو بڑھتی۔ رستے میں جتنی دکانیں بھی آتیں، دکاندار اپنی نشست سے اٹھ کر جنازے کو کندھا دیتے اور پھر واپس اپنی نشست پر آکر بیٹھ جاتے۔ الحمدللہ شہروں میں آج بھی یہ روایت موجود ہے جبکہ جدید بستیوں میں شادی اور مرگ دونوں صورتوں میں سارے کام دہاڑی پر کرائے جاتے ہیں۔ سو اُن میں رشتوں کی گرمی محسوس نہیں ہوتی۔ اندرون شہر کھانے پینے کی تمام چیزیں ہوم ڈیلیوری کی ذیل میں آتی ہیں، چنانچہ صبح سویرے سبزی والا، پھل والا بلکہ پریشر ککر ٹھیک کرنے والا، منجی پیڑی ٹھونکنے والا اور دوسرے پھیری والے ہر گھر کے دروازے پر آوازیں دیتے ہیں۔ موچی بھی کسی دیوار کے سائے تلے بیٹھا ہوتا ہے، چنانچہ خاتون خانہ مکان کی دوسری منزل سے رسی کے ذریعے ’چھکو‘ نیچے گلی میں لٹکاتی ہے اور اُس کی ضرورت گھر بیٹھے بٹھائے پوری ہوجاتی ہے۔
رمضان المبارک کے دنوں میں سحری اور افطاری کے وقت جو رونق اور چہل پہل ہوتی ہے، ہم جدید بستیوں کے لوگ اُس کی لذت سے آشنا ہی نہیں ہیں۔ یہ ایک عجیب منظر ہوتا ہے، رات کے دو بجے نعتیں پڑھنے والوں کی ٹولیاں گلیوں سے گزرتی ہیں اور سوئے ہوئے لوگوں کو اپنے میٹھے اور مقدس لفظوں سے جگاتی ہیں، پھر ایک دم گھروں کی بتیاں جلنے لگتی ہیں اور اندھیروں میں ڈوبے ہوئے مکان روشن ہوجاتے ہیں۔ اندرون شہر کوئی ایسا گھر نہیں ہوتا جہاں ایک نہ ایک روزہ دار نہ ہو۔ پھر افطاری کے وقت وہی پھلوں، پکوڑوں اور فروٹ چاٹ کی بہاریں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ اُن دکانوں پر کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے۔ تراویح کی رونقیں اُس کے علاوہ ہیں اور شبینہ کی محفلیں تو پورے شہر میں نور کی ایک چادر سی بچھا دیتی ہیں، اگر کوئی غیر ملکی رمضان کے مہینے میں یا آگے پیچھے بھی ایک چکر اندرون شہر اور ایک چکر جدید بستیوں کا لگائے تو وہ سمجھے گا کہ شاید یہاں دو قومیں بستی ہیں حالانکہ دو قومیں نہیں دو طبقے ہیں، جن کے درمیان دیواریں حائل ہیں۔
میں اپنی جدید بستی کی دیوار پھلانگ کر دیوار کے دوسری طرف جانا چاہتا ہوں لیکن میرے بچے جدید بستیوں کی سہولتوں کے عادی ہوگئے ہیں، وہ مجھے اُدھر نہیں جانے دیتے، نہ جانے دیں لیکن اُنہیں شاید علم نہیں کہ اُن کے درمیان رہتے ہوئے بھی رات کو مجھے جو خواب آتے ہیں وہ اُن پرانی بستیوں ہی کے ہوتے ہیں، میں آج بھی اُن پرانی بستیوں میں ہی رہتا ہوں۔