قتل کے دوران وہاں پر موجود ایسوسی ایٹڈ پریس کا ایک فوٹو گرافر برہان ’اوزیبلیسی‘ وہاں موجود تھا اس کا آنکھوں دیکھا حال ملاحظہ کریں۔
میں پیر کو ایک تصویری نمائش میں شرکت کر رہا تھا. جہاں اچانک ایک مسلح شخص روسی سفیر پر حملہ آور ہوا انہوں نے کہا کہ کس طرح انہوں نے مہلک خطرے کے باوجود اپنے کیمرے کے ساتھ انتہائی ہولناک منظر پر کی کوریج جاری رکھی۔تصویروں کی نمائش کی افتتاحی تقریبت تھی جس میں اہم شخصیات مدعو تھیں جہاں جب روسی سفیر اپنی تقریر کیلئے ڈائس پر تشریف لائے تو ایک سیاہ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس شخص نے بندوق باہر نکالا تو میں دنگ رہ گیا تھا اورسوچا کہ یہ ایک تھیٹر کا سین ہے
مگر کے بجائےجب فائرنگ ہوئی تو اچانک حواس قابو میں نہ رہے اور جب حواس ذرا بحال ہوئے جس میں چند ساعتیں لگیں تو یہ تو واقعی ایک قتل تھا، لوگ ادھر ادھر بھاگنا شروع ہوئے اس میں عورتوں اور بچوں کی کثیر تعداد شامل تھے سب کے سب ادھر ادھر چھپنے لگے۔ کچھ ہال کی کرسیوں کے نیچے
مختصر بال کے ساتھ ایک دراز آدمی نے روسی سفیر کو قتل کردیا تھابجا طور پر دوسروں کے سامنے اس صورتحال کو بیان کرنا انتہائی مشکل ہے ایک خوف اور سراسیمگی کی فضا پھیل چکی تھی ۔ میں نے ہمت کر کے اور لوگوں کے ساتھعمارت کے ستونوں کے پیچھے اور میزوں اور کرسیوں کے نیچے چھپے ہوئے لوگوں کو دیکھا اور فرش پر لیٹ گیا.
مجھے ڈرنے بھی بری طرح اپنے قابو میں کر لیا تھا مگر میں ایک الجھن میں تھااور میں نے دیوار کے پیچھے کھڑے کھڑے سوچا کہ آخر میرا کام کیا ہے تصاویرلینا اور یہ میرے فن کی آزمائش کا وقت ہے کیونکہ میں نمائش میں محض شرکت کرنے
آیا تھا مگر تقریب کی رونق نے مجھے وہاں تصاویر بنانے اور دلکشی مناظر کو محفوظ کرنے پر مجبور کر رکھا تھا اور میں نے روسی سفیر کے خطاب کے دوران بھی قریب جا کر ان کی تصاویر بنائیں۔ پھراچانک گولیاں چلنے کی آوازیں اور حاضرین کی چیخ و پکار اور چند لمحوں میں روسی سفیر کی لاش مجھ سے صرف میٹر دورمیں فرش پر لیٹ گیاچند لمحوں تو مجھے بھی لگا جیسے مجھے بھی گولی مار دی گئی ہے۔