اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کہنا ہے کہ میں علیم خان اور جہانگیر ترین کو پارسا سمجھتا ہوں لیکن جس معیار پر نواز شریف کو تولا ہے انہیں بھی تولا جائے،آمدن سے زائد اثاثے کرپشن ہیں تو علیمہ خان اور عمران خان کو بھی جیل میں ڈالیں,موجودہ حالات کے ذمہ دار سیاستدان ،حکومت اور خفیہ ایجنسیاں ہیں,2018 کے الیکشن سے جمہوریت کمزور ہوئی ,پی پی پی اور پی ٹی آئی نیب قانون بدلنے پر تیار تھے مگر پاناما کیس سامنے آنے کے بعد دونوں جماعتوں نے انکار کردیا، ورکر کے دل میں مریم کیلئے جگہ موجود ہےوہ لیڈر بن چکی ہیں،چوہدری نثار اب بھی مسلم لیگ ن میں ہیں لیکن شہباز نثار رابطوں کا علم نہیں۔تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل ’’نیو نیوز ‘‘ کے پروگرام لائیو وِد نصرا للہ ملک ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جس معیار پر نواز شریف کو تولا ہے اسی پر موجودہ کابینہ کو تولیں تو 70 فیصد کابینہ جیل میں ہو گی،نیب کے چیئرمین کی بات نہیں ہے ،اس ادارے اور اندھے قانون کا مسئلہ ہے ،آپ نیب کی چیئرمین شپ پر کسی فرشتے کو بھی لا کر بٹھا دیں تو وہی ہو گا جو آج ہو رہا ہے،پی پی پی اور پی ٹی آئی نیب قانون بدلنے پر تیار تھے مگر پاناما کیس سامنے آنے کے بعد دونوں جماعتوں نے انکار کردیا،نیب کے کالے اور اندھے قانون کو تبدیل نہ کرنے پر معذرت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ احتجاج آخری آپشن ہوتا ہے ،ہم شروع میں ہی پتھر مار کر آمریت کی راہ ہموار نہیں کرنا چاہتے ۔انہوں نے کہا کہ مودی کے نواز شریف کے گھر آنے سے سول ملٹری تناؤ کے آغاز کےحوالے سے پھیلی باتیں غلط ہیں ،ایک آدمی دنیا کی بڑی جمہوریت کا وزیر اعظم ہے ،ہم اس سے چار جنگیں لڑ چکے ہیں ،ہم ان کے گھر تو نہیں گئے تھے وہ آپ کے گھر آیا تھا ،ہمارے معاشرے میں کیا ہوتا ہے کہ جب آپ چاہتے ہیں کہ معاملہ سلجھے تو آپ مخالفوں کے گھر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بتاؤ کیا مسئلہ ہے ؟حل کرتے ہیں ،میں سمجھتا ہوں کہ مودی ایک جذبے سے آئے تھے لیکن پاکستان نے موقع گنوا دیا ،اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات کی بہتری کا تو مجھے پتا نہیں لیکن ایک آدمی آپ کے گھر آ گیاتو پھر بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت تھی ،بات چیت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہنا چاہئے ،جب بات چیت کا سلسلہ منقطع ہو تو پھر مشکلات ہوتی ہیں ۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ کوئی بھی حکومت فارن پالیسی خود نہیں بناتی اس میں ہر ایک کی اِن پٹ شامل ہوتی ہے، نواز شریف پر فارن پالیسی کے حوالے سے تنقید ہوتی تھی کہ وہ وزیر اعظم ہو کر وزیر خارجہ بھی خود تھے ،اس کے مثبت اور منفی پہلو موجود تھے ،میں سمجھتا تھا کہ جو اس وقت حالات تھے یہ ضرورت تھی کہ وہ خود یہ کرتے ،فوجی حکام سے ہمیشہ مشاورت ہوتی تھی اگر کوئی کہے کہ نواز شریف مشاورت نہیں کرتے تھے تو یہ بات غلط ہے ،ہر ایشو پر مشاورت ہوتی تھی یہ ملک ایسے نہیں چلتا ،یہ غلط تاثر ہے کہ مشاورت کے بغیر نواز شریف فارن پالیسی چلاتے تھے۔انہوں نے کہا کہ میں بااختیار اس حد تک تھا کہ کوئی بھی فیصلہ کر سکتا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ رکاوٹیں نہیں آتی تھیں،انٹروینشن سے ضروری نہیں کہ فوج مراد ہو ،عدلیہ، نیب، بیوروکریسی، میڈیا وغیرہ رکاوٹیں بہت سی جگہوں سے ڈالی جاتی ہیں ، فیض آباد دھرنے کے دوران آئی جی اسلام آباد نے بات ماننے سے انکارکر دیا تھا ،جب افسر کو پتا ہو کہ کام کرنے پر عدلیہ ہتک کرے گی تو وہ وزیر اعظم کا حکم بھی نہیں مانے گا،ہر ادارہ ایگزیکٹو کی فیصلہ سازی میں مداخلت کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ شاید ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں، سیاست دان کبھی یہ نہیں کہتا کہ ہم خطاؤں سے پاک ہیں،سب جماعتوں نے غلطیاں کی ہیں، انسان غلطیوں کا پتلا ہوتا ہے میاں نواز شریف کا بھی قصور ہو گا وہ بھی ایک انسان ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار سیاستدان ،حکومت اور خفیہ ایجنسیاں ہیں، سب سے زیادہ قصور اُن لوگوں کا ہے جو اپنی پارٹی وفاداریاں چھوڑ کر آمروں کےساتھ مل گئے، ہمارے ملک میں عدم اعتماد تقریبا ناممکن کام ہے۔