counter easy hit

میں نوائے وقت میں کالم لکھتا تھا ، ایک روز شریف برادران پر کچھ تنقید کر بیٹھا ، پھر

لاہور(ویب ڈیسک)اپنے گزشتہ کالم میں، میں شریف برادران کے ساتھ اپنے تعلقات اور ان کے مزاج پر بات کررہا تھا۔ ایک ڈیل کے ذریعے جدہ کے سرورپیلس میں سرور لینے کے بعدوہ جب واپس پاکستان آئے ہمارا خیال تھا اپنی طرف سے اتنا ”مشکل“ وقت گزارنے کے بعد ضرور اپنی غلطیوں سے انہوں نے سبق سیکھا ہوگا اور اب جب وہ اقتدار میں آئیں گے وہ غلطیاں بلکہ بلنڈر زہرگز نہیں دہرائیں گے۔
معروف صحافی توفیق بٹ اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔خصوصاً اپنی روایتی منتقم مزاجی سے ضرور چھٹکارا حاصل کرلیں گے…. مگر افسوس یہاں عادت تبدیل نہیں ہوتی فطرت کیسے ہوسکتی ہے ؟ انہوں نے دوبارہ وہی غلطیاں دہرانا شروع کردیں۔ میں تب نوائے وقت میں لکھتا تھا۔ ان کے کچھ بلنڈرز پر میں نے لکھا۔ خصوصاً جب ایک جونیئر افسر کی بطور چیف سیکرٹری تقرری پر کالم لکھا وہ آگ بگولہ ہوگئے، پہلے نوائے وقت میں میرا کالم بند کروایا۔ اس کے بعد ایم ایس ایف کے ذریعے مجھ پر حملہ کروادیا۔ پھر میرے سرکاری گھر کی الاٹمنٹ کینسل کردی۔ اس نوعیت کی دیگر کارروائیوں سے مجھے جھکانے کی پوری کوششیں کی گئی۔ جس میں الحمد للہ وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر میرے کچھ بہت عزیز دوستوں کے ذریعے مجھے قابو کرنے کی کوشش کی ، جس کے بعد ان سے طویل نشست ہوئی۔ میں نے عرض کیا ”حضور جو صحافی یا قلم کار آپ سے لفافہ مانگے اسے لفافہ دیں، جو صرف عزت کا طلب گار ہو اسے عزت دے کر دیکھیں اور دوسروں کو عزت وہی دیتا ہے جس کے اپنے پاس عزت ہوتی ہے ۔ آپ کے پاس
اقتدار ہے عزت نہیں ہے ، اور آپ کو مخلص لوگوں سے زیادہ ”وفادار“ اچھے لگتے ہیں، جوآپ کے ہر جھوٹ سچ پر دم ہلاتے ہیں۔ وہ مسکرائے۔ انہوں نے پوچھا ”اچھا یہ بتائیں وفادار اور مخلص میں کیا فرق ہوتا ہے ؟“ …. میں نے کہا ”اپنے کسی وفادار سے آپ اگر یہ کہیں یہ دن ہے تم اسے رات قرار دے دو“۔ تو وہ کہے گا ”میاں صاحب یہ رات ہی تو ہے …. آپ سے کسی نے کہا کہ یہ دن ہے ؟“۔ اور اپنے کسی مخلص ساتھی سے آپ اگر یہ کہیں یہ رات ہے تم اسے دن قرار دے دو“ تو وہ آپ کو قائل کرنے کی پوری کوشش کرے گا کہ حضور یہ رات ہی ہے ، میں اسے دن قرار نہیں دے سکتا“ ،…. میں نے یہ بھی ان کی خدمت میں عرض کیا ”آپ کے منہ پر سب آپ کی تعریف خوشامد کرتے ہیں، آپ کی پیٹھ پیچھے جو کہتے ہیں، وہ آپ کو نہیں ہمیں پتہ ہے “۔ اس پر وہ بولے ”چلیں آپ بتادیں میرے پیچھے وہ کیا کہتے ہیں ؟“….اس پر ایک واقعہ میں نے انہیں سنایا “ ۔ایک بار دانش سکول کے حوالے سے ایک میٹنگ تھی، اس کی صدارت آپ نے (وزیراعلیٰ پنجاب) فرمانی تھی۔ آپ ابھی تشریف نہیں لائے تھے، ایک اعلیٰ افسر آپ کے اس پراجیکٹ (دانش سکول) کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہا تھا، وہ کہہ رہا تھا ” یار یہ سی ایم تو پاگل ہی ہوگیا ہے ۔ کیسے کیسے ویرانوں میں دانش سکولز بنارہا ہے ،
یہاں بھلا کون داخلہ لے گا، اور کون یہاں پڑھانے جائے گا؟۔ وغیرہ وغیرہ “…. کچھ دیر بعد آپ تشریف لے آئے۔ آپ کرسی صدارت پر بیٹھ گئے۔ میٹنگ شروع ہوئی۔ سیکرٹری سکولز نے آپ کو بریفنگ دی۔ اس کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ جواعلیٰ افسر کچھ دیر پہلے آپ کی غیرموجودگی میں آپ کے اس پراجیکٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہا تھا، وہ بولا ” سر ہم نے اپنے دور کا سرسید احمد خان تو دیکھا نہیں ہے ، اب آپ کی صورت میں ایک سرسید احمد خان ہمیں مل گیا ہے “۔ ….اس پر آپ نے حسب عادت ادھر ادھر دیکھا اور اپنی طرف سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جیسے آپ نے اپنی تعریف میں کہی گئی یہ بات نہیں سنی۔ اصل میں آپ چاہتے تھے یہ بات دہرائی جائے تاکہ میٹنگ میں موجود پہلی بار کسی نے نہیں سنی وہ دوسری بار سن لے، …. سو، آپ نے اس افسر سے کہا ”تارڑ صاحب کیا فرمایا، ابھی آپ نے ؟“…. اس پر اس افسر نے دوبارہ کہا ” سر میں یہ کہہ رہا تھا آپ اس دور کے سرسید احمد خان ہیں “۔…. تو حضور یہی آپ کے ”وفادار“ ہیں جو ہروقت آپ کے اردگرد رہتے ہیں، اور آپ انہیں اردگرد رکھنا پسند بھی فرماتے ہیں۔ …. بہرحال یہ ان کے ساتھ ایک طویل نشست تھی جس کا اختتام خوشگوار نہیں ہوا، آج شریف برادران رسوائیوں کے جس مقام پر کھڑے ہیں میرے خیال میں اس کی دو

بنیادی وجوہات ہیں ایک ان کا تکبر دوسرے منتقم مزاجی …. یہ کرپشن کی سزا نہیں ہے ،کرپشن تو وہ اس وقت سے کرتے چلے آرہے ہیں جب سے وہ اقتدار میں آئے۔ یہ سزا اصل میں تکبر کی ہے جو شاید اس وقت ختم ہوگی جب تکبر ختم ہوگا جس کی امید ذرا کم ہی ہے کیونکہ یہ ان کی فطرت کا باقاعدہ حصہ ہے ، …. مجھ غریب قلم کار کے خلاف ان کی انتقامی کارروائیاں جب عروج پر تھیں ان کی جماعت کے ایک رہنما نے میرے بارے میں ان سے کہا ”آپ جب جدہ میں زیر عتاب تھے توفیق بٹ نے کئی کالمز آپ کے حق میں لکھے۔ آپ اسے یہ صلہ دے رہے ہیں؟۔ چھوٹے میاں صاحب نے اس پر فرمایا ” وہ مکے مدینے والا کالم بھی اسی نے لکھا تھا “…. اچھا اب میں آپ کو بتاتا ہوں وہ مکے مدینے والا کالم کیا تھا جو انہیں یاد رہ گیا اور اس کے مقابلے میں اپنے حق میں لکھے گئے ایک سو تراسی کالمز وہ بھول گئے۔ یہ جب جدے گئے (تحریری طورپر تو میں ”جدے گئے“ ہی کہہ سکتا ہوں) تو مجھے اچھا نہیں لگا کہ اپنے بے شمار مخلص اور قربانیاں دینے والے ساتھیوں کو اکیلا چھوڑ کر وہ بھاگ گئے ہیں،
…. خیر وہاں جاکر پہلے تو کئی مہینے وہ خاموش رہے ، پھر اک روز اچانک ان کا بیان سامنے آگیا کہ ”ہم خوش قسمت ہیں ہمیں مدینے والے نے اپنے پاس بلا لیا “ …. تب ایسے ہی از رہ مذاق میں نے لکھ دیا ” آپ واقعی خوش قسمت ہیں آپ کو مدینے والے نے اپنے پاس بلا لیا آپ کچھ دیر اور جیل میں رہتے آپ کو مکے والے نے اپنے پاس بلا لینا تھا“ …. یہ بے ضررسا اک جملہ بھی ان سے ہضم نہ ہوا۔ ….ایم ایس ایف کے ذریعے جب مجھ پر حملہ کروایا اس وقت پرویز راٹھور سی سی پی او لاہور اور چوہدری شفیق گجر ایس ایس پی لاہور تھے، دونوں کے ساتھ میرے اچھے مراسم تھے، مگر دونوں نے اس موقع پر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں جو بے رخی دکھائی میں سمجھ گیا یہ مجبور ہیں، ان میں سے ایک نے تو بعد میں اپنی ”مجبوریوں“ کے بارے میں مجھے بتا بھی دیا تھا، بلکہ مجھ سے معذرت بھی کی تھی، مجھ پر حملے کے بعد ایم ایس ایف نے گورنمنٹ کالج گلبرگ لاہور کے میرے دفتر پر نہ صرف قبضہ کرلیا بلکہ میرا قیمتی سامان بھی چوری کرلیا۔ میں ان پولیس افسروں کی منتیں کرتا رہا کم ازکم میرا سامان تو واپس کروادیں۔ میرا بریف کیس بھی تھا جس میں میرے بچوں کے پاسپورٹ تھے۔ ۔ دودن بعد ہم نے برطانیہ جانا تھا وہاں بھی نہ جاسکے۔ یہ المناک داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔ (جاری )

 

اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں
اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔