counter easy hit

آج میں اخبار میں اپنے کالم کی جگہ خالی چھپوانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ پاکستان کے پہلے نابینا کالم نگار نے کل یہ بات کیوں کہی ؟ حیران کر دینے والی تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) خالی صفحے دینے کی روایت ہمیں ایک اور جگہ بھی ملتی ہے۔ یعنی جب اخبارات کسی ڈکٹیٹر کی سنسرشپ کی پابندیوں کے خلاف خاموش احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو وہ عموماً اپنے صفحات سے سنسرشپ کی زد میں آکر اتاری گئی خبریں یا مضامین کی جگہ کو خالی ہی رہنے دیتے ہیں۔

پاکستان کے پہلے نابینا کالم نگار سید سردار احمد پیرزادہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اخبار انہی خالی جگہوں کے ساتھ شائع ہوکر مخصوص احتجاج کی روایت میں شامل ہو جاتا ہے۔ آج 12 اکتوبر کا دن ہے۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو آج خالی شائع کروانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو اپنی ذاتی انا کے لیے اُس وقت کی جمہوریت کو قتل کردیا تھا۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو آج خالی شائع کروانا چاہتا ہوں کیونکہ جنرل پرویز مشرف کے جمہوریت کے خلاف قاتلانہ اقدام کے حق میں صرف سیاسی حسد کی وجہ سے تقریباً تمام سیاسی بونے نواز شریف کا تختہ الٹنے کے ظاہری اور درپردہ حامی نظر آنے لگے تھے۔ پیپلز پارٹی نے بھی جنرل پرویز مشرف کو ویسی بری نظر سے نہیں دیکھا جیسے وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو دیکھنے کے عادی ہیں۔ یہاں تک کہ لبرل ازم اور مغربی معاشرتی رسم و رواج کی مخالف جماعت اسلامی بھی اُس وقت نواز شریف کو تنہا چھوڑنے میں کسی سے پیچھے نہ تھی۔ وہی جماعت اسلامی جو کبھی بھی ووٹوں کی بنیاد پر عوامی جماعت تو نہ بن سکی لیکن پریشر گروپ کے حوالے سے 50ء تا 80ء کی دہائیوں میں اس کا طوطی بولتا تھا۔ وہی جماعت اسلامی جو اَب ڈوبنے سے بچنے کے لیے تنکے کے سہارے کو بھی غنیمت جانتی ہے خواہ اُسے 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی بغل بچہ جماعت ہی کیوں نہ بننا پڑا۔ اُسی جماعت اسلامی نے نواز شریف کے مقابلےمیں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کو ترجیح دی تھی۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو آج خالی شائع کروانا چاہتا ہوں کیونکہ جنرل پرویز مشرف نے آکر ملک کو دائو پرتو لگایا ہی یہاں کے مظلوم عوام کو بھی بیچ کر ڈالر کمانے شروع کردیئے۔ وہی جنرل پرویز مشرف جس نے اپنے اقتدار کی سپورٹ کے لیے پاک سرزمین کے کچھ ہوائی اڈے امریکہ کے استعمال میں دے دیئے۔

وہی جنرل پرویز مشرف جس نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ جن الزامات کی بنیاد پر الٹا تھا وہ سب اُس کی اپنی حکومت میں کارفرما ہوگئے جن میں حکمرانی کا غرور، اقرباپروری، فیصلوں میں غیرملکی مفادات کو اہمیت ملنا، کشمیر کی سودے بازی، قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے اور اپنے ہی شہریوں کو غیرملکی بارود سے مروانا وغیرہ شامل تھے۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو آج خالی شائع کروانا چاہتا ہوں کیونکہ 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ کو بھی سلاخوں کے پیچھے بند کردیا۔ وہی جنرل پرویز مشرف جس نے سیاست دانوں کو ملنے والے ووٹ کی عزت کو سرعام رسوا کرکے اپنے لیے ریفرنڈم کا ناٹک رچایا اور 98فیصد ووٹ لینے کا وہ دعویٰ کیا جو دوسری عالمی جنگ جیتنے والے برطانوی وزیراعظم چرچل اور امریکی صدر روزویلٹ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو آج خالی شائع کروانا چاہتا ہوں کیونکہ 12 اکتوبر 1999ء کی رات کو پاکستان کے منتخب وزیراعظم نواز شریف جیل میں تھے اور آج 12 اکتوبر 2019ء کی رات کو بھی نواز شریف جیل میں ہی ہیں جبکہ پرویز مشرف دن دیہاڑے آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ڈکٹیٹروں کے یہ دن اور جمہوریت کی یہ راتیں کب ختم ہوں گی؟ جاپانی طالبہ کے خالی کاغذ کو جب گرم کیا گیا تو اُس پر الفاظ ابھر آئے۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ کے وہ صفحات جو بظاہر خالی نظر آتے ہیں ان میں لکھی نظر نہ آنے والی تحریریں کب ابھر کر سامنے آئیں گی؟ میں اپنے کالم کی جگہ کو آج خالی شائع کروانا چاہتا ہوں ۔

I, WANT, TO, WRITE A, BLANK, COLUMN, SAID, PAKISTAN'S, FIRST, BLIND, COLUMNIST

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website