میں آج کل بہت خوفزدہ ہوں۔ خوف موت کا نہیں ہے، کیونکہ موت تو ایک اٹل حقیقت ہے، جسے ایک روز بہرحال آنا ہے۔ ویسے بھی جب عمر کی نقدی کم ہونے لگتی ہے، موت کا خوف بھی ختم ہونے لگتا ہے۔ خوف دراصل ان حالات سے آرہا ہے، جو کسی ناگہانی طوفان کی مانند وطن عزیز پر منڈلارہے ہیں۔ جو حالات ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے کئی سوالات ذہن میں گردش کررہے ہیں۔
ریاست پر کس کی حکمرانی ہے؟ کون منصوبہ ساز وفیصلہ ساز ہے؟ کس کے اشارے پر امور سلطنت چلتے ہیں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ خاص طور پر گئے برس کے آخری مہینے اور نئے سال کی ابتدا میں جو کچھ ہوا اور اب تک ہورہا ہے، وہ ہر متوشش شہری کو پریشان بلکہ خوفزدہ کردینے کے لیے کافی ہے۔
معاملات تو کئی دہائیوں سے الجھنوں کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ مگر اس سال کے آغاز میں بلاگرز کے اغوا اور پھر اچانک واپسی نے ذہنی الجھنوں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ ان کے اٹھائے جانے کے بعد ملکی سطح پر جو تنازع پیدا ہوا یا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، اس نے ہر متوشش شہری کے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس صورتحال نے عدم برداشت اور متشدد فرقہ ورایت کے چنگل میں پھنسے معاشرے کو ایک نئی جنون پرستی کی طرف دھکیلنے کا سامان کردیا۔
گزشتہ پیر کو پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جہاں قومی سلامتی کے حوالے سے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا، وہیں انھوں نے اس الزام کی بھی تردید کی کہ بلاگرز کے اغوا اور رہائی سے ان کے ادارے کا کوئی تعلق رہا ہے۔ قومی سلامتی کے ایک اہم ادارے کے ترجمان کے کہے پر اعتبار نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں ہے۔ مگر ان کی وضاحت کے بعد ذہن میں نئی الجھنیں پیدا ہوگئیں۔
اول، یہ کہ اگر کسی ریاستی ادارے نے ان بلاگرز کو نہیں اٹھایا تھاتو پھر کس نے اٹھایا۔ دوئم، سینیٹ چیئرمین، جو ایک اہم قومی ادارے کے سربراہ ہونے کے علاوہ صدر ِمملکت کی عدم موجودگی میں ان کی ذمے داریاں ادا کرتے ہیں، ان کی گفتگو میں پائے جانے والے اشارے اور کنائیے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
بلاگرز کے غائب کیے جانے کے دوران اور ان کی رہائی کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کے بیانات بھی خاصے معنی خیز رہے ہیں۔ ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ یہ خبر آئی کہ ایک بلاگر سلمان حیدر کو ایف آئی اے نے طلب کرلیا ہے۔ اس خبر کی اشاعت کے فوراً بعد (گزرے بدھ کو) وفاقی وزیر داخلہ کا ایک اور بیان سامنے آیا، جس میں انھوں نے فرمایا کہ ایف آئی اے کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ پریشان خاندانوں کومزید پریشانیوں میں مبتلا کرے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایف آئی اے کی کارروائی سے وہ لاعلم تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ادارے کے ذمے دار افسران نے وفاقی وزیر داخلہ کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا۔ کیوں ضروری نہیں سمجھا، یہ بھی ایک غور طلب سوال ہے۔ جب چہار سو اس حوالے سے کنفیوژن پھیلا ہوا ہو، وازرت داخلہ کے ایک ماتحت ادارہ کا اپنے وزیر کو اعتماد میں لیے بغیر بالا ہی بالا ایک حساس معاملے پر نوٹس جاری کرنے کے عمل نے مزید الجھنیں پیدا کردیں۔
درج بالا واقعات اور صورتحال کو دیکھتے ہوئے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں، جو ہر متوشش شہری کے ذہن میں الجھنیں پیدا کرنے کا باعث ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ان بلاگرز کو اگر ریاست کے کسی ادارے نے نہیں اٹھایا، تو وہ کون سے غیر ریاستی عناصر ہیں، جو اس قدر طاقتور ہیں کہ انھوں نے ریاسست کے اندر ریاست قائم کر رکھی ہے؟ اور جسے جب چاہیں اٹھا لے جائیں اور پھر رہا کردیں؟ اور ریاست اور ریاستی ادارے لاچارگی کے عالم میں منہ تکتے رہ جائیں؟ پھر مذکورہ بلاگرز اور ان کی حمایت کرنے والے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کے خلاف انتہائی معاندانہ پروپیگنڈاشروع ہو گیا‘ اس پراپیگنڈے کے پس پشت کیا مقاصد ہیں؟ اس نئی متنازع صورتحال کا فائدہ کن حلقوں (یا غیر ریاستی عناصر) کو پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
اب ایک ایسے معاشرتی ڈھانچے میں جہاں ذاتی دشمنی یا کسی مخصوص مفادات کے حصول کی خاطرکوئی بھی سنگین الزام عائد کرنا، دراصل عام شہریوں کو مشتعل کرکے قتل و غارت گری پر اکسانا ہے۔ پھر ریاست اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں غیر ریاستی عناصر کا پورے ملک میں دندناتے پھرنا اور جسے چاہیں اور جب چاہیں اٹھا کر لے جانا، کیا ہم جیسے لوگوں کو خوفزدہ کردینے کے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا یہ ریاست کی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے؟ یہ دیکھے کہ کس قانون اور ضابطے کا غلط استعمال کیا جارہا ہے؟ اس کے تدارک کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جاسکتا ہے؟ بلاگرز کے اغوا اور واپسی کے بعد اس معاملہ پر اب خاموشی نہیں چلے گی۔ بلکہ حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اس گتھی کو سلجھانا ہوگا کہ بلاگرز کو کس نے اٹھایا؟ کیوں اٹھایا؟ پھر کیوں چھوڑ دیا؟ کیونکہ اس معاملہ نے خوف و ہراس کی ایک نئی فصل اگا دی ہے۔
اگر ریاست اور اس کے ادارے ملوث نہیں ہیں تو وہ کون سے غیر ریاستی ایکٹر ہیں، جو یہ کام کررہے ہیں؟ حکومت نے انھیں ریاست کے اندر ریاست چلانے کا اختیار کیوں دے رکھا ہے؟ کیا حکومت ان عناصر سے خوفزدہ ہے یا کوئی اور سبب ہے؟ اب اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہم کب تک اس طرح کے خوف و ہراس میں زندگی گزارتے رہے ہیں گے؟ بظاہر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملک میں اظہار کی مکمل آزادی ہے۔ مگر جس انداز میں غیر ریاستی قوتیں اختلافی نکتہ نظر رکھنے والے حلقوں کی زباں بندی کرتی ہیں، وہ بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کو ٹھوس اور پائیدار بنیادوں پر حل کیا جانا اب وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔