عمران خان نے رائیونڈ مارچ کااعلان کیا اور لائل پور تک دہائی سنائی دی ۔ٹانگیں توڑنے والے گنڈاسے ہاتھوں میںلے کر گھروں سے نکل آئے ۔نوری نتوں اور مولا جٹوں کے ڈائیلاگ ٹی وی چینلوں پر گونجنے لگے۔مجھے ایسا لگا جیسے کسی جیالے عاشق نے کسی غیر ت مند کےگھر کے باہر ڈیرے ڈالنے کا اعلان کردیا ہو ۔وہ گانا یاد آگیا اک گھر بنائوں گا تیرے گھر کے سامنے دنیا بسائوں گا تیرے گھر کے سامنے عمران خان نے رائیونڈ میں گھر بنانے کا تو کبھی نہیں سوچا ۔البتہ وہاںکچھ دیر کیلئے یا کچھ دنوں کیلئے دنیا بسانے کا ارادہ ضرور رکھتے ہیںاور وہ بھی مذکورہ گھر سے خاصے فاصلے پر ۔اتنا دور بھی نہیں کہ خدانخواستہ عشاق کے گانوں ، ترانوں اور تقریروں سے اہل خانہ محروم رہ جائیں ۔جاتی امرا کے نواح میں تحریک انصاف کے احتجاج کی اور بھی بہت سی وجوہات ہونگی مگر شاید عمران خان یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ وزیر اعظم کی ذاتی رہائش گاہ کا جاہ و جلال بھی دیکھیں اس کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہوں ۔ایک اکلوتے محل کی طرف رواں دواں درختوں سے ڈھانپی ہوئی کارپٹ روڈ کا نظارہ کریں ۔اس طرف سے گزرتی ہوئی جوئے آب میں تیرتی ہوئی بطخوں کی اٹکھیلیوں سے محظوظ ہوں ۔بڑے بڑے دلانوں میں گھومتے ہوئے مور وں کا مشاہدہ کریں ۔چوکڑیاں بھرتے ہوئے ہرن دیکھیں ۔فواروں سے نکلتے ہوئے پانی کی دھاروں سے آنکھ مچولی کھیلیں ۔ہر طرف پھیلے ہوئے روشنیوں کے رنگ اپنی آنکھوں میں سمیٹیں ۔یقینا تحریک انصاف کا یہ احتجاج پاکستانیوں کے لئے کسی پکنک سے کم نہیں ہوگا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پکنک منانے والوں کے ساتھ گھر کے مالک کیا سلوک کرتے ہیں ۔برطانیہ میں آئے دن برطانوی وزیر اعظم کے گھر کے باہر احتجاج کیلئے لوگ جمع ہوتے ہیں ۔ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ کے کونے پر کھڑے ہوکرا سپیکر لگا کر تقریریںکرتے ہیں ۔یعنی وزیر اعظم احتجاجیوں سے بیس پچیس کلومیٹر دور اپنے گھر میں بیٹھ کراپنے خلاف ہر طرح کی تقاریر سنتے ہیں ۔ کئی دفعہ یہ بھی ہوا ہے کہ اگر احتجاج کرنے والوں کی تعداد کم ہو تو وزیر اعظم کے گھر سے ان کی تواضع کیلئے کوئی کھانے پینے کی چیز بھی بھیج دی جاتی ہے۔مگرجاتی امرا میں تو امید یہی کی جارہی ہے کہ احتجاجیوں کا استقبال گنڈاسوں سے کیا جائے گا ۔ مجھے یقین ہے کہ جب جمائمہ خان کے گھر کے باہر نون لیگ کے لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا تو جمائمہ خان کی والدہ نے ملازمین سے کہا ہوگاکہ یہ جو لوگ ہمارے گھر کےباہر احتجاج کیلئے آئے ہیں ان کے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کیا جائے ۔ یہ بری بات ہوگی کہ یہ کچھ کھائے پیئے بغیر یہاں سے چلے جائیں مگر کسی نے سمجھایا ہوگا کہ ایسا نہ کریں آپ اِن لوگوں کو نہیں جانتیں اگرایک بار کچھ کھانے پینے کو دے دیا تو یہ روز آکر کھڑے ہوجایا کریں گے ۔ممکن ہے جاتی امرا والے بھی اِسی ڈر سے بن بلائے مہمانوں کی مہمان نوازی نہ کریں وگرنہ جائمہ خان کی ماں کی طرح وہ بھی بہت مہمان نوازلوگ ہیں۔ویسے یہ بن بلائے مہمان بھی بڑے سلجھے ہوئے لوگ ہونگے ۔اِن سے اُس کام کی توقع تو ہرگز نہیں کی جاسکتی جو ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر جانے والے گلو بٹوں نے کیا تھا بلکہ اِن سے تو اس کام کی امید بھی نہیں جو سابق صدر فاروق لغاری کے گھر کےباہر احتجاجیوں نے کیا تھا ۔ کچھ احتجاجی یہ سوچ رہے تھے کہ وہ کچھ گدھے بھی ساتھ لے کر جائیں گے جنہیں وہیں باندھ آئیں گے مگر جہانگیر سلطان نے انہیں یہ کہانی سنا کر روک دیا’’کہ ایک کسان اپنے گدھے کو اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا تو اُس نے کہا۔’’ رسی تو نہیں ہے میرے پاس، مگر ایک بات بتاتا ہوں اُس پر عمل کر۔رسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تُو گدھے کے پاس جا کر ایسی حرکتیں کرجیسے رسی کو گردن میں ڈال کر کستے اور پھر کھونٹی کے ساتھ باندھتے ہیں، دیکھنا گدھا رات بھر کھونٹے کے پاس ہی کھڑا رہے گا۔ رسی نہ ہونے کے سبب کسان نے مجبوراً اسی نصیحت پر عمل کیا اور گھر میں جا کر سو گیا۔صبح دیکھا تو گدھا کھونٹے کے پاس ہی کھڑاتھا۔کسان نے گدھے کو ہانک کر کام پر لے جانا چاہا تو اُس نے انکار کردیا۔ کھینچا، زور لگایا اور ڈنڈے برسائے مگر گدھا اپنی جگہ پر جمارہا۔ہمسایہ بھی تماشا دیکھ رہا تھا۔اُس نے پوچھا ’’گردن سے رسی کھولی ہے؟‘‘کسان نے حیرت سے پوچھا’’: کونسی رسی؟ میں نے تو بس رسی باندھنے کی اداکاری کی تھی، رسی تھوڑی باندھی تھی؟‘‘ہمسایہ بولا ’’بے شک تیرے نقطہ نظر سے تو رسی گدھے کے گلے میں نہیں ہے، مگر گدھے کے نزدیک تو رسی گلے میں موجود ہے ۔کسان نے واپس جا کر گدھے کی گردن سے اور بعد میں کھونٹے سے رسی کھولنے کی اداکاری کی اور گدھا خاموشی سے مالک کے ساتھ چل پڑا۔گدھے کے گدھے پن پر مسکرائیے نہیں ۔ہم سب کی گردنوں میں کئی غیر مرئی رسیاں موجود ہیں جو ہمیں لاشعوری طور پر آگے بڑھنے سے روکے رکھتی ہیں ۔کئی طرح کےاعتقادات ، عادات ، رسوم و رواج ، وہم اورسماجی دبائو کی رسیاں جوہمیں دکھائی نہیں دیتیں مگر ہم ان کے شکنجے میں جکڑے ہوتے ہیں ۔یہی کہ فلاں کو ووٹ نہیں دینا ۔فلاں نے کہہ دیا ہے ۔ یہ بندہ ایماندار ہے مگر ووٹ ضائع کیوں کریں اُس نے جیتنا تو ہے ہی نہیں۔یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا ۔کہیں یوں نہ ہوجائے کہیں ووں نہ ہوجائے ۔اسی طرح کی کچھ رسیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہی ہم لوگ رائیونڈمارچ کر رہے ہیں ۔سو دوسروں کے دروازوں پر گدھے باندھنے سے بہتر عمل یہ ہے کہ اپنی گردنوں میں پڑی ہوئی نادیدہ رسیاں نکالی جائیں ۔ویسے تو اس سنجیدہ کہانی نے ساری پکنک کا مزا کرکرا کردیا ہے پھر بھی رائے ونڈ مارچ میں شریک ہونے والوں کیلئے مشورہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیا ضرور ساتھ لے کر جائیں کیونکہ مجھے لگتا ہے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا واقعی یہی خیال ہے کہ دنیا بسائیں گے تیرے گھر کے سامنے ۔یعنی دھرنا۔