چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے وقتوں میں مزاحمت کی علامت بن کر ابھرے تھے۔ مجھے یاد ہے اس دور میں میرا ایک ٹی وی پروگرام کو بطور تجزیہ کار ہوسٹ کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ میں نے کبھی بھی عدالت کے حوالے سے گفتگو نہیں کی۔ مگر پھر جب افتخار چوہدری نے عدالتی معاملات کے حوالے سے گفتگو پر پابندی لگائی تو میں نے پہلی مرتبہ عدالت پر بات کی۔ تاریخ گیارہ مئی 2007ء تھی بروز جمعہ پروگرام میں چیف جسٹس کے کراچی آمد پر حالت کو دیکھتے ہوئے مزاحمت کی صورت میں 50 افراد کی ہلاکتوں کی پیشن گوئی کی۔ کراچی کے حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ تعداد بھی کم لگتی تھی۔ میں نے کم از کم تعداد جو ٹی وی اسکرین پر بیان کی۔ وہ تعداد درست ثابت ہوئی۔ یہ اور بات کہ 13مئی کو اسلام آباد روانگی کی وجہ سے میرا پروگرام کا سلسلہ مزید نہ رہا۔
اس دور میں اخباروں میں کالم نویسی کا سلسلہ جاری تھا۔ حالات بگڑتے ہی جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ سانحہ طاہر پلازہ رونما ہو گیا۔ اس دور میں کراچی کے حالات پر ایک نظم بھی لکھی جس کا ایک شعر تھا۔
بگڑ رہے ہیں حالات مزید
کھلے پھر رہے ہیں یزید
بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ میرا تجزیہ درست تھا۔ کل 9 اپریل تھی اور ایک رات قبل اس سانحہ کے حوالے سے راجہ رشید کشمیری کا ایک پیغام ملا تو ماضی کی تلخ یادیں تازہ ہو گئیں۔ سوچا صبح ہوتے ہی سانحہ طاہر پلازہ پر معلومات حاصل کر کے کچھ تحریر کیا جانا اشد ضروری ہے۔ سوچا بھی کہ اس دور میں جب افتخار چوہدری نے اس کیس کو اپنے انجام تک نہ پہنچایا تو پھر کس سے امید کی جا سکتی ہے۔ مگر لکھاری کا لکھنا تو فرض ہے۔ کوئی سنے نہ سنے۔ صدا لگانا تو فرض ٹھہرا۔
صبح سویرے پرانے دوست وکیل اسلم بھٹہ کو فون کیا۔ انہوں نے اپنی معلومات سے آگاہ کیا اور کہا کہ مکمل معلومات تو آپ کو بار ایسوسی ایشن کے صدر سے مل سکتی ہے۔ ان کی محبت کہ میری رہنمائی کی اور فوری طور پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر حیدر امام رضوی کا نمبر عنایت کردیا۔ رضوی صاحب سے پہلی مرتبہ گفتگو ہوئی تو بے گناہ شہید ہونے والے و کیلوں کے کرب کا اندازہ ہوا۔ ان کی آواز میں چھپا درد کاش کوئی سمجھ سکے۔ کوئی نہیں تو موجودہ چیف جسٹس پنجاب کے بعد سندھ کا رخ کریں تو کیا ہی خوب ہو۔
کاش چیف جسٹس سانحہ طاہر پلازہ کی پکار سن لیں اور اس پر سوموٹو ایکشن لیں۔ یہی سوچتے ہوئے اس حوالے سے حقائق پیش کئے جا رہے ہیں۔
9 اپریل 2008ء کو سٹی کورٹ کے قریب واقع طاہر پلازہ میں گھس کر حملہ آوروں نے وکیلوں کو ان کے کلائنٹس سمیت زندہ جلا دیا۔ حیدر امام رضوی صدر کراچی بار ایسوسی ایشن کے مطابق سٹی کورٹ کے احاطے میں اور اس سے باہر موجود کراچی بار ایسوسی ایشن اور سندھ بار ایسوسی ایشن کے اسٹیکر والی گاڑیوں کو لمحہ بھر میں آگ لگا دی گئی تھی۔ چاروں طرف گولیوں کی بوچھاڑ تھی اور آگ جل رہی تھی۔
فضاء میں جلنے کی بو پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ عجب لمحے تھے جب انصاف کی دہلیز پر انصاف میسر نہ تھا۔ رضوی صاحب کہتے ہیں وجیہہ الدین کمیشن بنا مگر کچھ نہ ہوا۔ سانحہ بارہ اور 9 اپریل کا سانحہ طاہر پلازہ رونما ہونے کے بعد افتخار چودھری واپس بحال ہوئے تو امید تھی کہ سوموٹو لیں گے مگر کچھ نہ ہوا۔
حیدر امام رضوی صدر کراچی بار ایسوسی ایشن بے بسی کے عالم میں کہنے لگے آج پھر 9 اپریل ہے اور آج صبح ساڑھے گیارہ بجے کراچی بار ایسوسی ایشن کا جنرل باڈی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ جس میں ہم پھر قرارداد پیش کر کے منظور بھی کریں گے۔ رضوی صاحب کی رائے کے مطابق سانحہ طاہر پلازہ کے حوالے سے ایک کمیشن فوری انصاف کیلئے بننا چاہیئے۔ کاش چیف جسٹس وکلاء کو بھی انصاف دلا سکیں۔
میں ایک معمولی سا لکھاری کیا لکھوں کہ مرنے والے کوئی اور نہ تھے وکیل تھے۔ ایک وکیل شہریار شیری کو گولی مار کر شہید کردیا گیا تو دوسری جانب طاہر پلازہ میں الطاف عباسی کو ان کے چار کلائینٹ سمیت زندہ جلا دیا گیا تھا۔
ان کے خون کا کون حساب دے گا؟ ذہن سوچ کر پرانے واقعات کی تصویر بناتا چلا جاتا ہے اور حاصل سوائے الجھنوں کے کچھ نہیں ہوتا۔ مجھ سے معمولی قلم کارکے پاس حیدر امام رضوی کے سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ مگر ایک شخصیت ایسی بھی ہے جو کچھ کر سکتی ہے۔ انصاف کی پکار سن سکتی ہے۔ وہ اور کوئی نہیں اسے ہم چیف جسٹس کے نام سے جانتے ہیں۔ چلیں میرے سنگ آپ بھی ان کی جانب امید کے دامن کو پھیلاتے ہوئے سوال کریں۔ کاش چیف جسٹس کبھی 9 اپریل سانحہ طاہر پلازہ کی پکار سنیں۔