پاکستان کی سیاسی اورجمہوری حکمرانی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ ہماری قیادت کی ترجیحات میں سیاسی نظام کی اصلاح کاکوئی بڑا ایجنڈا نہیں۔ وہ روائتی، غیر جمہوری سیاست اور اپنے آمرانہ طرز عمل کی وجہ سے خود جمہوریت کو کمزور کرنے کاسبب بنتے ہیں۔سیاست میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا سیاسی نعرہ اگر محض جذباتیت تک محدود ہو تو اس کے نتائج بھی غیر موثر ہوتے ہیں۔ ادارے افراد کے تابع ہوں تو جمہوری نظام کی مضبوطی کا خواب محض خوش فہمی ہے۔
عمومی دلیل ہے کہ جمہوریت کی اصل روح اورکنجی مقامی جمہوریت ہے۔ مقامی نظام حکومت کا تجزیہ ہی اس بات کو ثابت کرے گا کہ ملک میں جمہوریت کس حد تک موجود ہے۔ کیونکہ اگر مقامی نظام جمہوری بنیادوں پر موجود نہ ہو تو اس سے اوپر کے سیاسی نظام کبھی بھی جمہوری نظام کی عکاسی نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی روائتی جمہوری نظام کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ اس میں مقامی جمہوریت کا نظام کسی بھی حکمران جماعت کی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاست کا بنیادی نعرہ مقامی حکومت کا مضبوط نظام تھا۔لیکن سیاسی حکمرانی کے نظام کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ عدم مرکزیت کے مقابلے میں عملی طور پر مرکزیت کے نظام کے حامی ہیں۔ منتخب نمایندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام کو طاقت دے کر خود جمہوری نظام کا تماشہ بنایا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر یہ ہی بڑی تنقید تھی کہ یہ لوگ مقامی نظام حکومت کے حقیقی دشمن ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کا بھی رویہ ماضی کی حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے پنجاب میں مقامی حکومتوں کے نظام کے تناظر میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی نظام حکومت کے تناظر میں دو بل پیش کیے گئے ہیں جن میں اول پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء اور دوئم پنجاب پنچایت اینڈ نیبرہڈ کونسل ایکٹ 2019ء پیش کیا گیا ہے۔ پہلی بار مقامی نظام کو دو مختلف بلوں کی صورت میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مقامی نظام حکومت کو دو قانونی حصوں میں کیوں تقسیم کیا گیا ہے اور کیوں پنچایت و نیبر ہڈ کونسلز کو پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کا حصہ نہیں بنایا گیا، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ان کا آپس میں کوئی قانونی اور انتظامی تعلق واضح نہیں ہے اور دونوں بلوں کی مدت ایک نہیں بلکہ پانچ اور تین برس ہو گی جو خود تضاد ہے۔
اگر یہ پیش کردہ مقامی حکومت کا قانون منظورہوتا ہے تو اس صورت میں عملاًپہلے سے موجود 60ہزار منتخب سربراہ و کونسلرزکو فوری طور پر برخاست کرکے ان کی جگہ ایک برس کے لیے غیر منتخب فرد کو ایڈمنسٹریٹر لگایا جائے گا۔ اگر حکومت نئے انتخابات چاہتی ہے تو اسے اسی بل کے تحت نئی قانون سازی کرنی چاہیے جس کے تحت ایک برس کے لیے ایڈمنسٹریٹر لگانے کی بجائے فوری انتخاب کا اعلان کیا یا ان کی مدت کو کم کر کے ان اداروں کو ختم کیا جاتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نئے بل میں ضلع کونسل یا ضلعی نظام کو ہی ختم کردیا گیا ہے۔ یعنی اس نئے نظام میں ضلع کونسلیں یا ضلعی حکومتیں عملاً موجود ہی نہیں ہیں اوریہ امکان موجود ہے کہ صوبائی حکومت خود ہی انتظامی سربراہان کی مدد سے ضلعی نظام کو خود کنٹرول کرے گی جو آئین کی روح کے خلاف ہے۔کیونکہ آئین کی شق140-اے صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ ضلعی سطح پر ضلعی حکومت کو سیاسی، انتظامی اورمالی اختیارات دینے کی پابند ہے۔جب کہ اس نظام میں تحصیل کونسل کو بنیاد بنایا جارہا ہے ۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں موجود غیر سیاسی لوگ یا ان کا بیوروکریسی پر انحصار نے ایک ایسا مقامی نظام سے جڑا بل پیش کیا ہے جس کی حمایت کرنا خود تحریک انصا ف کے سیاسی دوستوں کے لیے بھی مشکل ہوگا اوراس میں ان کا ہوم ورک بھی کمزور نظر آتا ہے۔
اس نئے نظام میں پنچایت اور نیبر ہڈ کونسل کا نظام بھی مبہم ہے اوربلاوجہ پہلے سے موجود یونین کونسلوں کو ختم کرکے ایک ایسا تجربہ کیا جارہا ہے جو افادیت نہیں رکھتا۔حالانکہ اگر ضلعی کونسل کے ساتھ یونین کونسلیں موجود ہوں اورتحصیل کونسلوں کا خاتمہ ہو جاتا تو نظام زیادہ افادیت قائم کر سکتا تھا۔اسی طرح اس نظا م کے تحت آدھا انتخاب جماعتی اور آدھا غیرجماعتی ہوگا جو جمہوریت کی نفی ہے اورعملی طور پر جو غیرجماعتی بنیاد پر انتخاب ہوگا وہ میدان میں سیاسی بنیاد پر ہی ہوگا۔یہ فیصلہ تحریک انصاف کے منشور کے بھی برعکس ہے جو صرف جماعتی انتخا ب پر زور دیتا ہے۔
عورتوں کی نشستوں کی تعداد بھی ماضی کے مقابلے میں کم کی گئی ہے اورکم سے کم 33 فیصد نشستوں کی نفی کی گئی ہے۔اسی طرح نوجوانوں اور ٹیکنوکریٹ کی نشست کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف کی اصل طاقت عورتیں اورنوجوان طبقہ ہے جسے اس نئے نظام میں مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے اور یہ عمل آئین کی شق32کی نفی بھی کرتا ہے جو محروم طبقات سمیت عورتوں اور نوجوانوں کی نمایندگی کو موثر بنانے پر زور دیتا ہے۔
شہروں کی سطح پر میٹروپولیٹن، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹیاں، ٹاو ن کمیٹیاں متعارف کروائی گئی ہیں۔دیہی علاقوں کے لیے ریونیو حلقہ بندیوں کا استعمال کرتے ہوئے ولیج کونسلیں اور تحصیل کونسلیں متعارف کروائی جارہی ہیں۔ شہری علاقوںکے لیے نیبر ہڈ کونسلوں کا تصور ہے مگر ان کا انتظامی و قانونی تعلق شہری مقامی حکومتوں کے نظام سے نہیں ہوگا۔اس نئے نظام کی مجموعی صحت کو دیکھا جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس میں اصل اختیارات کا مرکز یا تو صوبائی حکومت ہے یا بیوروکریسی۔ لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت بھی سرکاری بیوروکریسی پر ہی زیادہ انحصار کررہی ہے اوریہ وہی طرز عمل ہے جو ماضی میں شہباز شریف کا رہا ہے۔
تحریک انصاف کا یہ نظام اپنی ہی سابقہ دور میں خیبر پختونخوا کے مقامی نظام حکومت کی بھی عکاسی نہیں کرتا اورلگتا ہے کہ طاقتور فریقین اور روائتی طرز کی سیاست کے علمبرداروں نے عمران خان کی حکومت کو سیاسی طور پر ٹریپ کرلیا ہے اوراس بل پر ان کو زیادہ سیاسی اورقانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ اس بل میں کچھ اچھے نکات بھی ہیں جن میں براہ راست نچلی سطح پر فنڈز کی ترسیل مختلف محکموں کو مقامی نظام کے ماتحت کرنا اور متبادل ڈھانچوں کے مقابلے میں مقامی نظام کو مستحکم کرنا بھی شامل ہے۔مگر یہ امکان موجود ہے کہ یہ بل قانونی فورم پر یہ چیلنج بھی ہو گا اور عدالت بھی اسے آئین کے خلاف قرار دے سکتی ہے۔
تحریک انصاف کے نئے پاکستان میں فرسودہ مقامی نظام حکومت ایک بڑا سیاسی دھوکا ہے۔ اس بل کو حکومتی سطح سے جس تیزی سے منظور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بھی درست رویہ نہیں۔ یہ بل اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل سول سوسائٹی اور میڈیا میں بحث کے لیے پیش کیا جانا چاہیے تھا تاکہ اسے فریقین کی مشاورت سے زیادہ موثر بنایا جاتا۔ حکومت کوعملی طور پر دنیا میں مقامی حکومتوں کے نظام کے اچھے تجربات سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے تھا۔ کیونکہ دنیا نے اب حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو ممکن بنایا ہے۔ یہ جو یہاں حکمرانی کا بحران ہے وہ بھی موثر مقامی نظام حکومت کے نہ ہونے سے جڑا ہوا ہے اوریہ ہی وجہ ہے کہ لوگ حکمرانی کے نظام سے نالاں نظر آتے ہیں۔ جب بھی جمہوریت سے جڑے لوگوں کو مقامی جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کا موقع ملتا ہے تو وہ آمرانہ طرز عمل اختیار کر کے مقامی حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنانے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اور یہ ہی ہماری جمہوری سیاست کا المیہ بھی ہے۔