فیصل آباد کے علاقے ڈجکوٹ میں ایم اے انگلش کی طالبہ عابدہ کو یونیورسٹی سے واپسی پر اغواء کر کے ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا اور اس کی تشدد شدہ لاش کو نہر کے کنارے پھینک دیا گیا لیکن یہ کوئی اتنا بڑا حادثہ تو نہیں کہ میڈیا اسے اہم ترین خبر کے طور پر پیش کرے۔ آخر ملک میں اور بھی بہت سے ضروری اور توجہ طلب معاملات چل رہے ہیں جیسے کہ ملالہ کی پاکستان آمد، ملکی سیاسی حالات اور پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی وغیرہ۔ ابھی پچھلے دنوں ہی تو میڈیا نے زینب کیس کو اتنی کوریج دی تھی یہاں تک کہ مجرموں کے عالمی نیٹ ورک تک کو بے نقاب کر دیا تھا جس کے بارے میں سیکورٹی ادارے تک لاعلم رہے اور ابھی تک لاعلم ہیں۔
لوگوں کو بھی ایسے ہی تنقید کی عادت پڑ گئی ہے، کہتے ہیں ہماری پولیس کوئی کام نہیں کرتی حالانکہ ہماری پولیس جیسی محنتی فورس تو چراغ لے کر بھی ڈھونڈھی جائے تو نہ ملے۔ بیچارے سارا دن تو اپنی “روزی روٹی” کیلئے مختلف مقامات پر ناکے لگا کر لوگوں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ غریبوں، نہتی عورتوں اور بزرگوں پر سرِ عام تشدد کرنا کوئی آسان کام ہے؟ تھانوں میں انصاف بیچ کر جھوٹے مقدمات کا اندراج کرنے کے بعد جو تھوڑا بہت وقت بچتا ہے اس میں بھی وہ پوری ایمانداری سے امراء کی خدمت کرتے ہیں۔ اب ایسے میں عابدہ جیسے کیس کا بھی اندراج کر کے اسکی تحقیات کرنے کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ڈال دینا انتہائی ناانصافی اور زیادتی ہوگی۔
ہمارا ملک شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر ادارہ انتہائی لگن اور جذبہ کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ حکومتِ وقت کو ہی دیکھ لیں کتنی مستعدی کے ساتھ سڑکیں اور پل بنانے میں مصروف ہے۔ یہ سب وہ صرف ہماری خاطر کر رہے ہیں تاکہ اگر کوئی عابدہ ریپ کے بعد بھی زندہ چھوڑ دی جائے تو کم سے کم وہ سہولت کے ساتھ کسی اچھے سے پل سے کود کر اپنی جان تو دے سکے۔ حکومت کی پوری توجہ ملک کی ترقی پر ہے، ایسے میں اسے ریپ جسے معمولی واقعات کے بارے پریشان کرنا اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرنا انتہائی احمقانہ ہوگا۔
اپوزیشن سے زیادہ ہمدرد تو ہم لوگوں کا کوئی اور ہے ہی نہیں۔ ہر وقت اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ہم لوگوں کی خاطر کبھی دھرنے دیتے ہیں تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ہماری خدمت کرنے کی نت نئی پلاننگ کرتے ہیں۔ جب تک حکومت میں آنے کے بعد مجبوریاں آڑے نہیں آ جاتیں تب تک ہر موقع پر ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا “اگر” عابدہ کیس میں کوئی سخت عوامی ردعمل سامنے آیا تو ہی اپوزیشن بھی کچھ کر پائے گی ورنہ ہماری معصوم اپوزیشن تو شاید اس واقعے سے لاعلم ہی رہ جائے۔
کچھ لوگوں کا تو دماغ چل گیا ہے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کبھی جسٹس فار زینب تو کبھی جسٹس فار عابدہ کے ٹرینڈز بنا رہے ہیں۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ ابھی عدلیہ ملک کے انتظامی امور کی اصلاح اور دیکھ بھال میں مصروف ہے۔ عدلیہ کے پاس تو ابھی زندہ لوگوں کو انصاف دینے کا وقت نہیں ہے تو بھلا مردہ ہو چکے وجودوں کو انصاف کیسے فراہم کرے گی۔ ویسے بھی مردوں کو انصاف حاصل کرنے کی کون سی جلدی ہوتی ہے، اگر 20 ، 30 سال لگ بھی جائیں تو انھیں کون سا فرق پڑتا ہے۔
میرا خیال ہے عابدہ جسے معمولی کیس کے بارے میں اتنا لکھ دینا ہی کافی ہوگا کیونکہ مستقبل کے لیے بھی تو کچھ الفاظ بچا کر رکھنے ہیں۔ یہ حادثات و واقعات تو ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ ابھی تو زینب کی قبر کی مٹی میں بھی تھوڑی نمی باقی ہوگی کہ عابدہ کو قبرستان کے حوالے کرنا پڑ گیا۔ ابھی تو ہزاروں عابدہ اور زینب زندہ ہیں، بس دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار خدا کی بارگاہ میں جا کر یہ شکوہ کون کرے گی کہ یا رب تیری دنیا بڑی ظالم ہے۔