تحریر: حاجی محمد یونس باہی
مسلم ایک قوم ہے اور واحد مذہب ہے جس نے تعلیم کے حصول کو مردوزن پر گود سے لحد تک فرض قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوموں کی تقدیر نہ تو ائر کنڈیشنڈ دفتروں میں بنتی ہے نہ بڑی بڑی عمارتوں میں بنتی یا بگڑتی ہے جن کی حدود کو سکول و درسگاہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے برصغیر کی بد قسمتی ہے کہ انگریز کی سازش کا شکار سیکولرزم نے تعلیم کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ورنہ جنگ بد ر کے مشرک قیدیوں کو بطور سزا یا جذبہ 10 مسلمانوں پڑھنا لکھنا رہبر انقلاب محسن انسانیت امام الانبیاۖ نے مقرر کی۔ ذرا سوچیئے کیا وہ مشرک رب تعالیٰ کی وحدانیت کی تعلیم دیتے یا اسلام کی تعلیم یا نبی محتشم ماجہ تخلیق کائنات ۖکے ارشادات کو پیش کرتے۔ اس نقطہ کو علما کرام نے نہ جانے کیوں پس پشت ڈال کر تعلیم سے مراد صرف و حدیث تک محدود کر دیتے ہیں۔ذرا وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذہبی نظریات کے مدارس پر نظر دوڑائیں کتنی وسعت قلبی کو پیدا کیا جارہا ہے۔ جبکہ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا بہت زیادہ دخل ہے تعلیم زندگی کو روشنی مہیا کرتی ہے انسانیت کو جلد بخشتی ہے۔ افراد کو ممتا ز کرتی ہے۔ معاشروں کو خود مختار کرتی ہے۔ اس کے برعکس تعلیم کو فقدان انسان میں موجود روشنی کم سے کم ہونے لگتی ہے۔ حیوانی قوت غلبہ پانے لگتی ہے۔
دیکھتے دیکھتے اچھے بھلے انسانی معاشرے جنگل کے درندوں سے بھر جاتے ہیں جو مختلف روپ دھار کر درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں آپ مسجد سے بازار تک عدالت سے ہسپتال تک ، محافل میلاد النبی ۖ سے کھیل کے میدان تک الغرض بچے کی پیدائش سے لیکر اس کفن دفن اور ایصال ثواب کی محافل پر نظر دوڑائیں آپ کو مختلف لبادوں میں لٹیرے اور بھڑیے نظر آئیں گے۔ اس کی وجہ موجودہ تعلیمی ڈگر یوں کی کمی نہیں بلکہ اس تعلیم کی کمی ہے جو رب تعالیٰ نے اپنے حبیب ۖ کے ذریعے ہم تک پہنچائی ہے۔ یہ بات بھی خلاف حقیقت نہیں کہ آج بھی چند تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں اسلام کی روح کو پھونکا جا رہا ہے۔ اور عشاق مصطفیۖ میں ڈھالا جا رہا ہے۔ انہی اداروں میں سے ایک ادارہ میانوالی کی سرزمین پر اہلیان میانوالی کے لیے صرف نہیں بلکہ ملک بھر کے لیے ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔جسے دارلعلوم جامعہ غوثیہ واحدیہ فیض العلوم محلہ میانوالی کے نام سے جانااورپہچاناجاتاہے۔جامعہ واحدیہ غوثیہ فیض العلوم کا تھوڑا پس منظرقارئین کرام کی نظرکیاجارہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں تعلیم وہی ہے جو نسل انسانی کے دین و دنیاوی بیماریوں کو علاج اور شیطان کے فریب کی نشاندہی کر کے ان کو راہ ہدایت پر گامزن کر سکے۔ جامع واحدیہ کا نام پیر عبدالواحد شاہ والد محترم سید محمد منصور شاہ اویسی سر پرست و مہتمم دارلعلوم جامعہ واحدیہ کے اسم گرامی پر رکھا گیا ہے۔ پیر عبدا لواحد شاہ عیسیٰ خیل مولانا عبدالستارخان نیازی کے آبائی گائوں میں سید دوست محمد شاہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب کا تعلق عیسیٰ خیل سے تھا لیکن پیر عبدا لواحد شاہ کی پیدائش کمر مشانی میں ہوئی میٹرک کاامتحان گورنمنٹ ہائی سکول عیسیٰ خیل سے پاس کیا ۔ پہلے چونگی محرر پھر شعبہ پولیس میں بھرتی ہوئے۔ زیارت امام الانبیاۖ کے بعد ملازمت کو ترک کر دیا اور عبادت و ریاضت کے راستے سے تبلیغ عشق مصطفیۖ اور خدمت خلق پر اپنی ساری زندگی گزار دی۔ جنوری 2009ء کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو اپنے پسماندگان میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کے نظریات کی آبیاری کے لیے گلستان سی چکے تھے۔
ان کے صاحبزادگان میں سے صاحبزادہ محمد پارسا شاہ اور مہتمم و بانی و سر پرست جامعہ واحدیہ سید منصور شاہ اویسی صاحب خوب صورت انداز میں حیرانگیاں پھیلاتے ہوئے دینی و دنیاوی معاملات میں کردار ادا کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ انجمن غوثیہ واحدیہ کو 16اکتوبر 1998ء میں سید عبدا لواحد شاہ نے خود قائم کیاتھا۔ جس کا مقصد دین اسلام اور مسلک اہلسنت و جماعت کی ترویج واشاعت تھا۔ اس انجمن کے تحت مذہبی و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جولائی 1999 ء میں رسالہ الحدائق کا اجرا کیا گیا جو غالباً اب نہیں شائع ہورہا ہے جسے جامعہ واحدیہ کمیٹی کی کمزوری سمجھاجاسکتا ہے۔ مارچ 2003ء میں موجودہ مقام پر جامع مسجد غوثیہ کا سنگ بنیاد میرے پیرو مرشد بابا مظہر قیوم رحمتہ اللہ ف پپلاں نے رکھا۔ 2004 ء سے اب تک ہر سال دورہ تفسیر القران ہوتا ہے۔ جہاں ملک بھر سے سینکڑوں اہل ایمان ایمان کی حلاوت حاصل کرنے آتے ہیں اور اپنی علمی و روحانی تشنگی کو دور کرنے کے اسباب ڈھونڈتے ہیں یہاں سے سیراب ہو کر جاتے ہیں۔ انجمن غوثیہ کی عظیم درسگاہ کا افتتاح دامتی 2010 ء کو مرکز اہلسنت جامعہ غوثیہ واحدیہ کے نام سے پیر طریقت بابا مظہر قیوم نے کہا۔29مئی2009ء سے سید عبدالواحد شاہ کے رحلت فرمانے کے بعد صاحبزادہ منصور شاہ اویسی بریلوی مسند آراا رہے ہیں۔
وہ اپنی پر سطح کی ہر طرح کی خدمت کی وجہ سے عوام اہلسنت کے دلوں کی دھڑکن آنکھوں کا تار ڈگمگاتے حالات میں امید کا سہارا ہر طرف اندھیر نگری میں امید کا چراغ بن چکے ہیں۔ سید منصور شاہ اویسی بریلوی نے وقت اور اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق دنیاوی تعلیم کے لیے بھی واحدیہ ماڈل سکو ل قائم کر دیا ہے۔ جہاں پر سینکڑوں بچوں کو میٹرک تک مفت تعلیم دی جاتی ہے۔نہ صرف تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ بلکہ ان کی ضروریات زندگی کو بھی پورا کیا جاتاہے۔ انجمن غوثیہ واحدیہ کا جو قابل تحسین فیصلہ تھا وہ واحدیہ للبنات کا قیام رکھا جو وتہ خیل میں قائم کیا گیا جہاں اس وقت سینکڑوں طالبات حفظ و عالمہ کورس کر رہی ہیں ان میں سے بیشتر طالبات رہائش پذیر بھی ہیں ان کے بھی تمام تر اخراجات ادارہ ادا کر رہا ہے۔ ان کے علاوہ بنوں روڈ دلیوالی رمضان آباد میں مسجد و مدرسہ زیر تعمیر ، تلہ گنگ روڈ پر سہراب والا میں زیر تعمیر ہے۔ گلمیری میں بچیوں اور بچوں کے لیے مدرسہ کی تعمیر شروع ہے۔
انجمن غوثیہ واحدیہ کے تحت دارالعلوم اور واحدیہ ماڈل سکول کے انتظامات و انصرام کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل مقر ر کیا جاتا ہے۔ 300 سے زائد اس کے اراکین میں مَیں ان کا رکن نہیں ہوں یہ اس لیے کہ رہا ہوں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ خود ان کا حق ہے اس لیے بڑھ چڑھ کر بیان کر رہا ہے۔ میں حقائق کوپیش کرنے کی اپنی طرف سے تسلی کر رہا ہوں۔ انجمن کاہر سال کے بعد 9رکنی کمیٹی اور صدر منتخب کیا جاتا ہے۔ جبکہ سید منصور شاہ اویسی تا حیات سر پرست اعلیٰ مقرر ہیں اب تک یہ خوش نصیب حضرات بطور صدر اپنی خدمات پیش کر چکے ہیں حاجی محبوب علی خان خنکی خیل، حاجی بشیر احمد ، صوفی سعید سیالوی ، ملک مجید اسہڑ، سید مظہر شاہ، علامہ محمد امیر بھوروی ، عارف خان شادی خیل صاحب موجود ہیں۔
صاحبزادہ منصور شاہ اویسی بریلوی نے انتہائی قلیل عرصے میں اپنے فن خطابت اپنی لگن اپنی محنت پر خلوص طریقے و انداز سے جسطرح کام کیا ہے انہوں نے اعلیٰ حضرت عاشقان رسولۖ کے ُسر خیل امام احمد رضا خان بریلوی کے نظریات کی پاسبانی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے احباب کو موجودہ و سابقین صدور و ممبران معاونین کی خدمات کو قبول کر کے انہیں مزید اسلام کی اصل روح کو پیش کرنے کی توفیق بخشے۔
وقار انجمن ہم سے ، فروغ انجمن ہم ہیں
سکوت شب سے پوچھ، صبح کی پہلی کرن ہم ہیں
تحریر: حاجی محمد یونس باہی
0306.0647079 0342.6879788