ہندو میرج ایکٹ 2015 ء شق 12 کی ضمنی شق چار کے مطابق اگر کوئی شادی شدہ ہندو جوڑا اپنا مذہب تبدیل کرلیتاہے تواس جوڑے کی شادی منسوخ ہوجائیگی۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل سینٹ میں بھیج دیاگیا
ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کی سربراہ کاکہنا ہے کہ ہم اس مسئلہ پربات چیت کرناچاہتے ہیں یعنی ہندومیرج ایکٹ 2015ء کی اس ضمنی شق نمبر(iv)کوختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات کرکے چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف نے غیرقانونی، غیراسلامی، غیراخلاقی اور بلاجواز بحث،بے تکی لفظوں کی جنگ اور طرح طرح کی موشگافیوں کادروازہ کھول دیاہے۔ انتہائی کرب اوردکھ کے ساتھ وطن عزیزکے سب سے بڑے قانونی ادارے سینٹ کا احترام ملحوظ خاطررکھتے ہوئے مذکورہ ایکٹ کی شق12کی ضمنی شق (iv) پرقانونی وآئینی، اسلامی اوراخلاقی گزارشات پیش خدمت ہیں۔ الحمدللہ !پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے، جس کا مطلب ”لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ”جیسا نعرہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں تمہید کے بعد عبارت شروع ہوتی ہے ” چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشراکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار واقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے ”۔ اس کے بعد تیسرا پیرا اس طرح شروع ہوتا ہے ” جس میں جمہوریت ، آزادی ، رواداری اور عدل عمرانی کے اُصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائے گا”مزید تاکید کے لیے چلتے ہیں دستور پاکستان کے حصہ اول ”ابتدائیہ ”صفحہ نمبر3 شق نمبر 6 ” اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا”۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون و آئین اسلام اور اسلام کی تشریح کے خلاف نہیں بن سکتا۔
محترم قارئین ومعززاراکین قومی اسمبلی و سینٹ ممبران !آئیے ہندو میرج ایکٹ 2015شق 12ضمنی شق (iv) کا اسلام کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔ قرآن مجید پارہ نمبر 2 سورة البقرہ کی آیت نمبر221میں رب ذو١لجلال،حاکم مطلق نے ہمارے لیے قانون میرج کچھ یوں نازل فرمایا ہے کہ ” اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور یقینا ایک مومن لونڈی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ تمہیں اچھی لگے ، اور نہ اپنی عورتوں کو مشرک مرد وں کے نکاح میں دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیںاوریقینا ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے، خواہ وہ تمہیں اچھا معلوم ہو ،یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور وہ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ”۔ قرآن مجیدمیں نازل ہونے والی آیات کے کچھ اسباب بھی ہوتے ہیںجنہیں شان نزول کہتے ہیں۔ مثلاََصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اللہ کے رسول ۖ سے کوئی مسئلہ پوچھتے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں حکم نازل فرما دیتے۔ مذکورہ آیت کا شان نزول امام قرطبی نے اپنی تفسیر اور صاحب اشرف الحواشی نے یوں بیان کیا ہے کہ یہ آیت صحابی رسول ابو مرثد غنوی کے بارے میں نازل ہوئی کہ اس نے مکہ کی ایک مشرک عورت ” عناق” سے شادی کا ارادہ کیا جس سے ایام جاہلیت میں اس کے تعلقات تھے۔ چنانچہ اس صحابی نے رسول ۖ سے اس بارے میں دریافت کیا تو سورة البقرة کی مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔ تفسیر ابن کثیرمیں اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام محترم حدیث شریف لائے ہیں کہ ”رسول اللہ ۖ نے سوائے ایماندار ، ہجرت کرکے آنیوالی عورتوں کے علاوہ کئی قسم کی عورتوں سے نکا ح کرنے کو ناجائز کیا اور کسی بھی دوسرے مذہب کی پابند عورتوں سے نکاح کو حرام قراردے دیا”۔
صلح حدیبیہ میں مردوں کے بارہ میں تو صاف شق موجود تھی کہ کوئی شخص مدینہ سے مکہ جائے گا تو مشرکین اسے واپس نہیں کریں گے اور کوئی شخص مسلمان ہوکر مکہ سے مدینہ آئے گا تو نبی مکرم ۖ اسے واپس قریش مکہ کے حوالے کریں گے مگر اس معاہدہ میں عورتوں کے حوالہ سے کسی قسم کی کوئی شق یا ضابطہ نہیں تھا ۔ زیر نظر سوة الممتحنہ آیت مبارکہ میں دواحکام موجود ہیں۔ پہلا حکم ہجرت کرکے آنے والی مومن عورتوں کے متعلق ہے جبکہ دوسراحکم ان کے نکاح جو پہلے مشرک شوہروں کے ساتھ تھے ، کے بارہ میں ہے۔ قرآن مجید کی سورة الممتحنہ آیت نمبر 10 میں ہے کہ ”اے لوگو! جوایمان لائے ہوجب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو جانچ پڑتال کرو، اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو زیادہ جاننے والا ہے ،پھر اگر تم جان لو کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار (مشرکین مکہ ) کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ یہ عورتیں ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ( کافرومشرک) ان کے لیے حلال ہو ں گے ”۔ اگرچہ ہجرت کر کے آنے والی ان عورتوں کے مشرک شوہر زندہ تھے اس کے باوجود اسلام نے ان کے درمیان تفریق کردی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک نیا حکم بیان کیا ہے کہ جس طرح مومن عورت کا نکاح کافر مرد سے باطل ہوگیا اسی طرح اب کافرعورت کانکاح مسلمان مردسے باطل ہوگیا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو حکم اوپر بیان ہوا ہے وہ اللہ کا حکم ہے اور اس کی اتباع ہی میں سب کے لیے خیر و مصلحت ہے ”۔
ابو داود،حدیث: 2692 میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیںکہ ” غزوئہ بدرکے موقع پر جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کی آزادی کے لیے فدیے بھیجے تو نبی کریم ۖکی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے شوہر ابو العاص کے لیے فدیہ کے طور پر مال بھیجا جس میں وہ ہار پیش کیا جو اُم المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو ابوالعاص سے شادی کے وقت دیا تھا۔ اسے دیکھ کر رسول اللہ ۖ پر شدید رقت طاری ہوئی ، فرمایا” اگر تم مناسب سمجھو تو اس قیدی کو ویسے ہی رہا کردو اور اس کا ہار اسے واپس کردو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے بخوشی قبول کیا۔ چنانچہ رسول اللہ ۖ نے ابوالعاص سے یہ عہد لیا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو آپ کی طرف بھیج دے گا۔ پھر رسول اللہۖ نے سیدنا زید بن حارثہ اور ایک انصاری صحابی کو بھیجا اور انہیں کہا ” تم وادی یا جج کے دامن میں رُکنا حتیٰ کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا تمہارے پاس آجائے، توپھر اسے ساتھ لے آنا”۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق مذکورہ بالا آیات کے نزول پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں کو جو ابھی شرک پر قائم تھیں، طلاق دے دی۔ قارئین محترم! اللہ کے لیے دیانتداری سے بتائیں ان آیات اور احکامات کے ہوتے ہوئے کسی مسلمان کو جسارت ہونی چاہیے کہ وہ ایسی خود ساختہ بحث کریں۔ کیا اللہ کا حکم کافی نہیں؟
ہاں ! اللہ رب العالمین نے اہل کتاب یعنی یہودو نصاریٰ کی عورتوں سے مشروط شادی کرنے کی اجازت دی ہے، باقی تمام مذاہب کی عورتوں سے ایک مسلمان کے لیے نکاح کرنا ہرصورت حرام ہے۔ اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی مشروط اجازت قرآن مجید سورة المائدہ کی آیت نمبر5میں ملاحظہ فرمائیں ”کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لیے حلال کی گئیں اوراہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے اورتمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے اور مسلمان پاک دامن عورتیں اور جو تم سے پہلے کتاب د ئیے گئے ہیںان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جبکہ تم ان کے مہر ادا کرو اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو ، نہ بطور اعلانیہ زناکاری کے اور نہ بطور پوشیدہ بدکاری کے، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اوراکارت ہیںاورآخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہیں”۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں تفہیم القرآن کی جلداول صفحہ 447 پر مولانا مودودی رقمطراز ہیں” اس سے مراد صرف یہود ونصاریٰ ہیں۔ نکا ح کی اجازت صرف انہی کی عورتوں سے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ شرط یہ لگائی ہے کہ وہ محصنات یعنی پاکدامن عورتیں ہوں۔ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے طورپر ارشاد فرمایاگیا ہے کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائے وہ اپنے ایمان و اخلاق کی طرف سے ہوشیار رہیں، کہیں ایسا نہ ہوکہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہوکر یا اس کے عقائداور اعمال سے متاثر ہوکر اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جوایمان کے منافی ہو”۔
اہل کتاب کے علاوہ تمام مذاہب کی عورتوں سے اللہ عزوجل نے مسلمانوں کے لیے شادی کرنا حرام کردیاہے اور اہل کتاب کے لیے پاک دامنی اور عفت وعصمت کی شرط لگادی ہے۔ باقی مذاہب میں ”شادی” کا کیا تصور ہے بحث میں پڑے بغیر میں صرف اہل کتاب یعنی یہودونصاریٰ کی بات کرتا ہوں۔ آج کا مغرب ” Sex Free Society”کا دلدادہ ہے جوجہاں، جس عمر ،جس وقت، جس جگہ ،جو گند مارے، راتیں بسر کرے، منہ کالا کرے ،کوئی پوچھنے والا نہیں، بدکاری ہی بدکاری اورسیاہ کاری ہی سیاہ کاری ہے۔ وہاں کسی باپ میں جرات یا کسی بھائی میں جسارت ہے کہ زبان کھولے ،اُن کے قانون وآئین تو بدکاروں کے ساتھ ہیں۔ اڑجائیں دھجیاں قانون کی،چپ سادھے گا جج، سر پٹائے گانیم پاگل باپ، جوان بیٹی ایک لفنڈر ”Boyfriend”کے ساتھ اکیلی گھومے پھرے، راتیں گزارے ،یہ دونوںبدکارایک لفظ کوپلیداورناپاک کرکے سہارالیںگے یعنی ”باہمی رضامندیMutual Understanding” دیکھئے غیرتِ ملی کے متعلق علامہ اقبال کیا فرماتے ہیں
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کرخاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی اہل کتاب نے ایک بڑا ظلم یہ کیاکہ اُنہوں نے سیاست کو مذہب سے الگ کردیا۔ سیاستدانوں نے مذہب سے چھٹکارا حاصل کرکے خوب من مانی کی اوراب بھی کررہے ہیں۔ ”Night Club”کے نام سے شر اب اوربدکاری کے اڈے بنائے، عیاشی کا کلچر دیا،تعلیم وتدریس جیسے مقدس اور تربیت کے شعبہ کو ان ناپاک عزائم کا نشانہ بناکر ”Sex Awareness”کے نام سے نئی نسل کاحسب ونسب اورخاندانی نظام ختم کیا۔ عالمی پالیسی برائے تعلیم کے نام سے بڑے بڑے بجٹ تعلیمی اداروں میں ٹھونسے جارہے ہیں تاکہ آئندہ نسل باپ دادا اورمذہب کے تصور کو بھول جائے، سب حرام اور بدکاری کی پیداوار ہوں۔
ہم جنس پرستی جیسے انسانیت سوز کرتوت کو قانونی شادی قرار دے رہے ہیں۔ کئی ممالک میں تو باقاعدہ قانون سازی بھی ہوچکی ہے ۔مذہب گرجاگھروں میں بند ہو چکا، عیسائی مذہبی پیشوا دکھ کے آنسو بہارہے ہیں، عیسائی مذہب کے دوبڑے فرقے آرتھوڈکس اور رومن کیتھولک کے دونوں سربراہ پیڑیارک کیرل اور پوپ فرانسس رواں سال 12فروری کو ہونے والی باہمی ملاقات کے اعلامیہ میں یورپ سے اپیل کررہے ہیںکہ اصل مسیحی جَڑوں سے جُڑے رہواور غیر مسیحی عوامل جیسے ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل وغیرہ سے دورہوجائو۔ مذہب کوسیاست سے جداکرنے کو بقول علامہ اقبال سمجھیں۔ جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہوجدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی محترم ممبران سینٹ اور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف! ازراہ کرم مجھے بتائیے کہ آپ آسمانی دین اسلام اور محمدرسول ۖکی پیاری سنت چھوڑکر کس مذہب کے ساتھ شادی رچانے کی قانون سازی چاہتے ہیں؟جائیں سارے یورپ میں غوطہ زن ہوں، فرداََ فرداََ ملیں، عصمت و عفت اور پاک دامنی ڈھونڈیں،آپ کی آنکھیں تھک جائیں گی مگر جو پاکیزگی اسلام دیتا ہے آپ ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ اسلام میں شادی یا نکاح عقیدے کی بنیادپر ہوتے ہیں عقیدہ تبدیل ہو توشادی یانکاح ختم ہوجاتاہے۔ ہمیں اسلام پر فخر ہے یہ زمانہ محمد کریم ۖ کا ہے، قرآن مجید کا ہے، ہمیشہ اسے ہی رہنا ہے تو ہمیں اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کی ایک بیٹی اللہ کے رسولۖ کی صحابیہ اُمِ سُلیم رضی اللہ عنہا کی شادی کا جذبہ ایمانی دیکھیں۔
مدینہ شریف کے بڑے تاجر اور زمیندار انتہائی حسین اور جوان ابو طلحہٰ نے ایک مسلمان بیوہ اُم سُلیم رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح بھیجا ،جواب دیتی ہیں ابو طلحہٰ آپ کے ساتھ نکاح بڑی سعادت ہے، میرادل بھی چاہتا ہے کہ آپ کو انکارنہ کروں، آپ بڑے مالدارآدمی ہیںمگرآپ کانکاح میرے ساتھ ہونہیں سکتا، ابو طلحہٰ جھنجلاکربولے کیوں؟ کہتی ہیں آپ کافر ومشرک ہیںاورمیں اسلام کی بیٹی ہوں۔ ابو طلحہٰ نے کہاکہ اگر میں اسلام قبول کرلوں تو فرماتی ہیں پھر میرا حق مہر آپ کا”قبول اسلام ”ہی ہوگا۔ سیدہ اُمِ سُلیم رضی اللہ عنہاکو صحابیہ ہونے کے علاوہ اللہ کے رسول ۖ سے دنیا میں ہی جنتی ہونے کی بشارت بھی ہے۔ صحابیات رسول ۖ میں جس کا حق مہر ”قبول اسلام” ہوا وہ صرف اُم سلیم رضی اللہ عنہا ہی ہیں۔ آئیے! حدیث رسول کریمۖ پر اختتام کریں۔رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ”نکاح میری سنت ہے اور جوکوئی میری سنت پر نہ چلے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں”حمدوکبریائی اللہ عزوجل کے لیے، درودوسلام محمدکریم ۖ امام الانبیاء کے لیے اور آپۖ کی آل،اصحاب اور آپۖکی پیروی کرنے والوں پر ۔ آمین