لاہور(ویب ڈیسک) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت آسیہ مسیح کی ملک میں موجودگی اور حکومتی خاتون رکن اسمبلی کی طرف سے اسمبلی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرے ، اگر آسیہ کو بیرون ملک بھجوادیا گیا ہے تو ثابت ہوگا کہ یہ پری پلان تھا اور سپریم کورٹ میں سماعت محض کاروائی تھی ۔ حکومت عوام کے اندر پائے جانے والے غم و غصہ اوربے چینی کو ختم کرنے کے لیے آسیہ کیس میں مدعی بن کر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دے اور اس کی سماعت سپریم کورٹ کا فل کورٹ کرے ، وزارت مذہبی امور سے ختم کیے گئے تحفظ ناموس رسالت سیل کو دوبارہ قائم کر کے نکالے گئے افسران کو بحال کیا جائے ،حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے عالمی عدالت میں انصاف باضابطہ درخواست دائر کرے ، پی ٹی آئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پیدا ہونے والے خدشات کو ختم کرنے کے لیے اس پر فوری طور پر اپنا موقف دے اور خاتون رکن اسمبلی سے لاتعلقی کا اعلان کرے ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے منصورہ میں پریس کانفرنس سے خطاب اور بعد ازاں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر قائم مقام سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی حافظ ساجد انور ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اصغر اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف بھی موجود تھے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ پیغمبروں کی توہین کھلم کھلا دہشتگردی ہے جس سے عالمی امن کو شدید خطرات ہیں ۔ حکومت او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اقوام متحدہ میں مقدس ہستیوں کی توہین کو جرم قرار دینے کی قرار داد پیش کرے ۔ انہوں نے کہاکہ آسیہ مسیح رہائی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی دانشمندانہ اقدام سامنے نہیں آیا ۔ یہ ایشو ابھی ختم نہیں ہوا ، عوام کے اندر پہلے دن کی طرح غم و غصہ موجود ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت جلد از جلد اپنی پوزیشن واضح کرے اور خود مدعی بن کر سپریم کورٹ میں اس مقدمہ پر نظرثانی کی درخواست دے ۔ انہوں نے کہاکہ معاشرے میں نظر آنے والا عدم برداشت کا رویہ اور سیاست حکومتی پارٹیوں کا اپنا پیدا کردہ ہے ۔آج وہ لوگ عوام کے احتجاج پر انگلیاں اٹھار ہے ہیں جنہوں نے کبھی سپریم کورٹ کے فیصلوں کا احترام نہیں کیا ۔ ان جماعتوں نے سپریم کورٹ اور پاکستان ٹیلی وژن پر حملہ کیا ۔ ر یلوے کی پٹڑیاں تک اکھیڑ دی گئیں اور ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ پرامن احتجاج کیا ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت میڈیا کو بھی نہیں بتا رہی کہ اس وقت آسیہ مسیح ملک میں ہے یا اسے بیرون ملک بھیج دیا گیاہے ۔یہ جمہوری حقوق کی پاسداری ہے نہ میڈیا کی آزادی ۔ میڈیا پر ایک غیر اعلانیہ سنسر شپ لگا دی گئی ہے ۔ میڈیا کو بے ہودہ اور اخلاق باختہ کیٹ واک اور فیشن شوز کو تو دکھانے کی آزادی ہے مگر تحفظ ناموس رسالت ﷺکے لیے ملک بھر میں ہونے والے ملین مارچ دکھانے پر پابندی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حضور ﷺ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی بھی کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا اس لیے حکومت کو فوری طور پراپنا دوٹوک موقف دیناہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ جس تیزی سے آسیہ مسیح کا مقدمہ نپٹا کر اسے رہا کیا گیاہے ، اس سے پتہ چلتاہے کہ یہ فیصلہ قانون اور انصاف کی بنیاد پر نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت جس طرح بیرونی دباؤ کے سامنے بے بس ہوگئی ہے ، سابقہ حکومتوں نے اس دباؤ کو اتنا محسوس نہیں کیا تھا ۔ وزیراعظم نے احتجاج کرنے والوں کو ایک چھوٹا سا گروہ قرار دے کر حقائق سے نظریں چرانے کی کوشش کی ہے ۔سینیٹرسراج الحق نے کہاکہ 15 نومبر کو لاہور میں حرمت رسول ﷺ ملین مارچ ہوگا جس میں تمام دینی جماعتیں شرکت کریں گے اور ماہ ربیع الاول میں اسلام آباد ، لاہور ، ملتان ، پشاور اور کوئٹہ میں سیرت النبی ﷺ کے بڑے بڑے جلسے ہوں گے ۔ انہوں نے کہاکہ توہین رسالت کرنے والوں کے خلاف حکومتوں نے ہمیشہ سٹینڈ لیا ہے مگر ہماری حکومت نے خاموشی اختیار کی جس سے عوام کو مایوسی ہوئی ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حکومت بڑے دعوؤں اور وعدوں کے ساتھ آئی تھی اور عوام نے حکومت سے بڑی توقعات باندھ رکھی تھیں مگر اقتدار سنبھالتے ہی حکومت نے عوام پر مہنگائی کے کوڑے برسانا شروع کردیا ۔ عوام سوچ رہے تھے کہ انہیں مہنگائی ، بے روزگاری اور ظلم سے نجات ملے گی مگر حکومت کے 75 دن عوام کے لیے دس سالوں پر بھاری ثابت ہوئے ہیں اور عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں بلبلا اٹھاہے ۔ انہوں نے کہاکہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے اورروپے کی بے قدری نے بھی عوام کی نیند اڑائے رکھی ۔ انہوں نے کہاکہ اسمبلی میں حکومتی خاتون رکن نے جس طرح اسرائیل کو تسلیم کرنے کے دلائل دیے یہ کوئی حادثاتی بیان نہیں بلکہ یہ ڈیل آف دی سنچری کا تسلسل ہے ۔ ان کے اس بیان سے فلسطینیوں کو بے انتہا دکھ پہنچا ۔ یہ بیان امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ موقف کی نفی ہے ۔ جب سے امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل ہواہے ، اہل فلسطین ہر جمعہ کو احتجاج کرتے ہیں اور اسرائیل متوار فلسطینیوں کا قتل عام کر رہاہے مگر ہزاروں کلو میٹر دور بائیس کروڑ مسلمانوں کے ملک میں اسرائیل کے حق میں بیانات دیے جارہے ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس بیان کو واپس لیا جائے ۔ یہ بیان کم علمی یا بے انتہا جہالت کا نتیجہ ہے یا پھر پی ٹی آئی حکومت کی پالیسی ہے ۔ پی ٹی آئی اپناموقف دے اور اپنی رکن اسمبلی کے خلاف کاروائی کرے