پنجاب کے پہلے آئی جی پولیس قربان علی خان کو اطلاع ملی کہ شیخوپورہ میں فسادات شروع ہو گئے ہیں۔ غصے میں میز پر مکا مار کر کہا “تف ہے تم لوگوں پر، کیا آزادی اس لئے لی تھی کہ ایک دوسرے کو ذبح کرو”۔ بعد کے برسوں میں قربان علی خان کا سیاسی کردار متنازع رہا لیکن اگست 1947 میں انسپکٹر جنرل قربان علی خان پولیس کا درست نصب العین بیان کر رہے تھے۔ ایک آزاد جمہوری ملک میں پولیس کا تصور درہ اٹھا کر چلنے والے کوتوال کا نہیں ہوتا۔ اسے کسی ملزم کو مجرم قرار دینے کا حق نہیں۔ اسے قانون سے تجاوز کا حق نہیں۔ پولیس آفیسر جب فری ہینڈ مانگتا ہے تو وہ قانون توڑنے کی آزادی مانگتا ہے۔ اگر پولیس کو من مانی کا اختیار دے دیا جائے تو ریاست اور شہری کے درمیان اعتماد کا پل ٹوٹ جاتا ہے۔ ریاست شہریوں کے جان و مال کی حفاظت پولیس کے ذریعے کرتی ہے۔ قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے پولیس کو غیر جانبدار ہونا چاہئے۔ غیرجمہوری نظام میں پولیس عوام پر بالادستی کا ہتھیار بن جاتی ہے۔ عوام کو دبانے کے لئے ریاست پولیس کو جو اختیارات دیتی ہے پولیس اہل کار اسے ذاتی فائدے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ بد عنوانی پھیل جاتی ہے۔ جرائم پیشہ لوگ قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں اور عام شہری خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں پنجاب پولیس کے متعدد سربراہوں نے اپنے مشاہدات تحریر کئے۔ راؤ عبدالرشید، حافظ ایس ڈی جامی اور سردار محمد چوہدری کی تصانیف چشم کشا ہیں۔ ہمارے جمہوری تجربے کی پیچیدگیوں نے پولیس کے ادارے کا کردار مسخ کیا ہے۔ ہم مسعود محمود، میاں بشیر احمد، سردار عبدالوکیل اور اصغر خان ہلاکو سے چلتے ہوئے عابد باکسر، چوہدری اسلم اور راؤ انوار کی ثقافت تک آ پہنچے ہیں۔ ایک پولیس افسر میڈیا کے سامنے اعلان کرتا ہے کہ پولیس میں سب چلتا ہے۔ اس پر غور کرنا چاہئے۔
شہری اپنا تحفظ ریاست کو سونپ چکا، ریاست کے پاس اندھی قوت موجود ہے، پولیس، جیل اور عدالت ہے۔ ضرورت پڑنے پر فوج سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ریاست کی اس طاقت کے خلاف شہری کو قانون کی ڈھال دی گئی ہے۔ آئین کی شق دس ضمانت دیتی ہے کہ کسی کو من مانے طور پر گرفتار نہیں کیا جائے گا نیز یہ کہ شہری کو منصفانہ سماعت کا حق حاصل ہے۔ ہمارے ایک مذہبی رہنما فرماتے ہیں کہ اگر الزامات غلط ہیں تو الزامات کو غلط ثابت کرنا ہوگا۔ ماہر قانون ہونے کا دعویٰ رکھنے والے اس مذہبی رہنما کو یاد دلانا چاہئے کہ منصفانہ سماعت میں ملزم کی بے گناہی کا مفروضہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ الزام کا ثبوت فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے۔ ملزم پر الزام کو غلط ثابت کرنے کی ذمہ داری عائد کر دی جائے تو شہری ریاست کی طاقت کے سامنے بے بس ہوجائے گا۔
مہمند ایجنسی میں چالیس بے گناہ پاکستانی شہید ہوئے ہیں۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو کراچی میں سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کو بغیر وارنٹ دکھائے اور سندھ اسمبلی کے ضابطہ 82 کے تحت ا سپیکر کو مطلع کئے بغیر گرفتار کیا جارہا تھا۔ مہمند ایجنسی میں دہشت گردی اور سندھ میں قائد حزب اختلاف کی گرفتاری میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ آئیے اس تعلق کی جڑیں دریافت کریں۔ 1977میں انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کو مذہبی نظام حکومت کے نعرے سے خلط ملط کیا گیا۔ اس وقت سوال اٹھانا ضروری تھا کہ کیا 1977 کی سیاسی تحریک 1973کے متفقہ عمرانی معاہدے سے انحراف کا اعلان تھی۔ سیاسی طور پر پسماندہ قوموں میں مقبولیت پسند سیاست کا سکہ چلتا ہے یعنی جوش و جذبے کی آڑ میں اصل سوال غائب کر دیا جاتا ہے۔ جولائی 1977 میں پاکستان کے آئین کو معطل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ آئین معطل نہیں ہوتے۔ آئین کی شق چھ تسلسل کی ضمانت دیتی ہے۔ سید فخر امام سے پوچھ لیجئے کہ مارچ 1985 میں ان کےا سپیکر کا حلف اٹھانے سے پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس کی نظامت کس کے سپرد تھی؟ معراج خالد کا 1985 کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجود ہونا ثبوت ہے کہ پانچ جولائی 1977 کو آئین معطل نہیں ہوا تھا۔ تب فوجی آمریت کو دو سوال درپیش تھے۔ عدلیہ سے آئینی تائید اور اقتدار کا سیاسی جواز۔ ابوالکلام محی الدین آزاد نے 1921میں کراچی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو بتایا تھا کہ میدان جنگ کے بعد ناانصافی کمرہ عدالت ہی میں ہوتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آمریت کی تائید کر دی۔ سیاسی جواز کے لئے اندرون ملک مذہبی نظام کا نعرہ اختیار کیا گیا اور بیرونی دنیا میں افغان مزاحمت کا جھنڈا اٹھایا گیا۔ ملک کے اندر مذہبی نعروں، اقدامات، استعاروں اور علامات کی مدد سے جو جال بْنا گیا وہ عالمی رستاخیز کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی صورت اختیار کر گیا۔ یہ دہشت گردی مذہب کے نام پر سیاست کا منطقی نتیجہ تھی۔ سیاسی قیادت کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ تقدیس، قومی سلامتی، قومی مفاد اور مشتعل ہجوم کی ایسی صف بندی کی گئی جس میں شہری کا تحفظ ختم ہوگیا۔ 1993میں وزیراعظم نواز شریف اچھی طرح جانتے تھے کہ لسانی سیاست، منظم جرائم اور مذہبی زور آوری کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو طالبان کی حمایت کرتی تھیں تو اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ ملک کی منتخب وزیراعظم کے سامنے اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ بے بسی کی آنچ کراچی سے لے کر گلگت اور پارہ چنار تک پہنچی۔ سکھ شہری بے گھر ہوئے۔ مسیحی گھرانے ترک وطن پر مجبور ہوئے۔ ہندو بچیوں کو تبدیلی مذہب پر مجبور کیا گیا۔ بلوچستان کے تاجر اغوا کئے گئے۔ پاکستان کی سر زمین کا ہنر مند کٹاؤ صرف کراچی اور حیدر آباد میں نہیں ہوا، ہماری دھرتی کے ہر حصے پر اس دستکاری کے گھاؤ لگے ہیں۔ پولیس اور سیاسی رسوخ کے گٹھ جوڑ کا مطلب یہ ہے کہ عوام تھانے کو خوف کی علامت سمجھتے ہیں۔ سیاسی رہنما نہیں جانتے کہ پولیس دراصل کس کے اشارے پر کام کرتی ہے۔ پولیس کی اعلیٰ کمان نہیں جانتی کہ ان کے ماتحت نظم و ضبط کی پابند ریاستی خدمت کا حصہ ہیں یا بھاری پردوں پر حرکت کرتے تاریک سائے۔ پولیس کا ایس پی فلموں کے فحش اشتہار اتارنے نکل جائے تو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ ملک بھر میں آئینی انحراف کی ترغیب دینے والے پوسٹر کیسے نمودار ہو گئے۔
آمریت ایک دلدل ہے۔ ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ یہ دلدل گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ آمریت بذات خود ایک غلطی ہے اور یہ غلطی اپنے ناگزیر منجدھار میں ڈوب جاتی ہے۔ تاہم لال مسجد کے واقعات کا جواب ابھی نہیں مل سکا۔ پوچھنا چاہئے کہ لال مسجد میں مورچہ بند لوگ کن افراد کے لئے محفوظ راستہ مانگ رہے تھے۔ 11 جولائی 2007 کے رد عمل میں 13 جولائی کو سوات میں فوجی کانوائے پر حملہ کیوں ہوا۔ کیا سوات، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن کرنے والی پیپلز پارٹی مذہبی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی میں رکاوٹ تھی؟ میجر جنرل اطہر عباس سے پوچھئے کہ کارروائی سے کون گریزاں تھا؟ ان سیاسی رہنماؤں سے سوال کیجئے جو فوجی کارروائی میں کامیابی کا امکان صرف چالیس فیصد بتاتے تھے۔ دسمبر 2013میں مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے کارروائی کے مشورے کے باوجود وزیراعظم نے مذاکرات کا اعلان کیوں کیا۔ نواز شریف کو اصل خدشہ یہ تھا کہ فیصلہ کن قوتوں سے مطلوبہ تائید نہ ملنے کی صورت میں معاملات ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ مذاکرات کا یہ تماشا جون 2014 تک جاری رہا، آپریشن ضرب عضب کا اعلان ہوتے ساتھ ہی اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان ہوا۔ دسمبر 2014 تک ملک پارلیمنٹ کے اندر سیاسی قوتوں کے دھاگے سے لٹکا رہا۔ پشاور آرمی اسکول میں دہشت گردی کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ ستمبر 2008 میں پارلیمنٹ کے بند اجلاس کے اعلامیہ سے مختلف نہیں تھا۔ متنوع نکات کی ایک طویل فہرست میں ہر فریق کے لئے مفید مطلب نکتہ موجود تھا۔ اکیسویں آئینی ترمیم پر بحث مباحثے میں معاملہ کھل گیا۔ دہشت گردی کی آڑ میں مذہبی سیاست کو آگے بڑھانے والے دہشت گردی کی متعین تعریف پر اعتراض اٹھا رہے تھے۔ بلوچستان اور کراچی کے حالات کی دہائی دی جا رہی تھی۔ مارچ 2015تک پشاور کے شہید بچوں کی قبروں پر مٹی بیٹھ گئی اور کراچی میں گرد و غبار اڑنے لگا۔ گزشتہ دو برس میں قوم کی توجہ مذہبی دہشت گردی سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تسلیم کہ دہشت گردوں کو بھاری نقصان پہنچا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے کوئٹہ سے مہمند تک ہمارے بچے مارے ہیں۔ ہمارے مسائل پیچیدہ ہیں۔ ممکن ہے کہ آئندہ کچھ مہینوں میں سیاسی صف بندی کا رنگ یکسر تبدیل ہوجائے۔ بنیادی سوال مگر یہی ہے کہ کیا پاکستان ایک مستحکم جمہوری ریاست ہے؟ کیا ہم معاشی ترقی پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ کیا بغیر کسی خوف کے قانون کی بالادستی کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر ملک میں سیاسی کشمکش کی اصل صورت جمہوری قوتوں میں باہم جائز مقابلے کی بجائے آمریت کے امکان سے دست و گریبان ہونا ہے تو ہم ایک مستحکم بندوبست کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ ریاست کے مقابلے میں شہری کو بے بسی، محرومی کی بجائے قوت اور اختیار کا نشان بننا چاہئے۔ راؤ انوار کہتے ہیں کہ سب چلتا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر سب چلتا ہے تو ملک کیسے چلے گا ؟
بشکریہ جنگ