میونخ (ویب ڈیسک) می ٹو مہم کے بعد میونخ میں ہونے والے سالانہ اکتوبر فیسٹیول میں پھول فروخت کرنے والی خواتین اب جنسی ہراسانی سے زیادہ آگاہ ہیں۔ یہ خواتین اس سے بچنے کے لیے کیا کرتی ہیں آئیے یہاں ان پر نظر ڈالتے ہیں۔دو ہفتے دورانیے کے اکتوبر فیسٹ میں پھول فروختکرنے والی یا بیئر کے ٹینٹوں میں جنہیں جرمن زبان میں ویزن کہا جاتا ہے، مہمانوں کو بیئر یا کھانے پینے کی فروخت کرنے والی خواتین کا روزانہ کا معمول قریب ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ میک اپ، ایسا بلاؤز زیب تن کرنا جیسی میں سینہ واضح ہوتا ہو اور پھر روایتی لباس پہننا جسے ڈرنڈل کہا جاتا ہے۔
ڈرنڈل پر لگے ربن کو خواتین اپنے رشتے کی مناسبت سے دائیں جانب، بائیں جانب یا پھر درمیان میں باندھتی ہیں۔اور پھر گلے میں ایک روایتی اسکارف اور کپڑوں کے نیچے سائیکلنگ کے لیے استعمال ہونے والے ٹائٹس یا خصوصی زیریں لباس۔ مگر یہ سائیکلنگ شارٹس کیوں؟ویزن یا ہالز میں میزوں کے درمیان بیئر یا پھر باہر پریٹزل اور پھول بیچنے والی خواتین ان سائیکلنگ شارٹس کو ان لوگوں سے بچنے کے لیے بطور تحفظ پہنتی ہیں جو ان کے جسموں کو دبانے یا چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ابھی دوپہر بھی نہیں ہوتی کہ ویزن اکتوبر فیسٹ میں شرکت کے لیے آنے والوں سے بھر چکا ہوتا ہے اور یہ خواتین کھانوں یا بیئر کے بڑے بڑے گلاسوں سے بھرے ہوئے ٹرے لیے میزوں کے درمیان کام میں مصروف ہوتی ہیں۔ لوگ موج مستی میں ہوتے ہیں اور جیسے جیسے شراب کا نشہ بڑھتا ہے، میوزک کے آغاز سے قبل ہی وہاں موجود انجان لوگ بھی دوست لگنے لگتے ہیں۔اکتوبر فیسٹیول میں کام کرنے والی خواتین یا وہاں آنے والی مہمان ان سب کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ رواں برس 186 ویں فیسٹیول کے محض پہلے ہی ہفتے میں 33 لاکھ لوگ اس میں شریک ہوئے۔
میونخ پولیس نے اس دوران جنسی ہراسانی کے 25 مقدمات رپورٹ کیے جن میں جنسی زیادتی کے تین واقعات بھی شامل تھے۔اچھی خبر یہ ہے کہ اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ پولیس نے 2017ء کے فیسٹیول کے دوران کام کرنے والی اور مہمان خواتین کی طرف سے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے ریکارڈ 67 معاملات درج کیے تھے۔ پولیس ترجمان کلاؤڈیا کُنزل کے مطابق 2018ء میں یہ تعداد کم ہو کر 45 رہی تھی۔می ٹو مہم شروع ہونے کے بعد جنسی ہراسانی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ خواتین اور بعض اوقات مرد حضرات بھی جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کو برداشت کرنے کو اب تیار نہیں اور ایسی صورت میں پولیس سے رابطہ کرتے ہیں۔ویٹرس کے کولہوں پر چپت لگا دینا، پھول فروخت کرنے والے لڑکی کے گالوں کو سہلانا یا پھر اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی کا بوسہ لے لینا: اب اس طرح کے رویے برداشت نہیں کیے جاتے اور اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ اس طرح سے حدود سے تجاوز کرنے کے بارے میں عوامی رویے اب بہت زیادہ بدل چکے ہیں۔اب بہت سے پیچیدہ سوالات سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں جن کے جواب سادہ نہیں ہیں: مردوں کو کس بات کی اجازت حاصل ہے؟ اور خواتین کے بارے میں کیا ہے؟ ایک مرد ایک خاتون کے کس حد تک نزدیک آ سکتا ہے؟ سرحدیں کہاں تک ہیں؟ کیا باس کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والی کسی خاتون کارکن کو پھول دے؟ کیا کسی کے ساتھ لگاؤ کی علامات کو غلط بھی سمجھا جا سکتا ہے؟ان معاملات پر اب بحث جاری ہے اور نتیجتاﹰ جنسی ہراسانی کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی اور اس سے بچاؤ کی تدابیر بھی واضح ہو رہی ہیں۔