فرض کریں، کسی لاٹری میں میرا اربوں روپوں کا انعام نکل آیا ہے۔ میں نے قیمتی گھر خرید لیا، اعلیٰ درجے کی کار خرید لی، عزیز و اقارب کے حقوق پورے کر دیئے، سفید پوشوں کی ضروریات کے لئے رقم مختص کر دی، بیٹوں کو مستقبل کی فکروں سے آزاد کر دیا، بیگم کو زیورات سے لاد دیا، دوستوں کے لئے دل میں موجود اپنی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنا دیا۔ اس کے باوجود یہ رقم ختم ہونے میں نہیں آ رہی، اگر میں باقی ماندہ رقم بینک میں جمع کراتا ہوں تو یہ الٹا کئی گنا مزید بڑھ جائے گی، سو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں؟
میں ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ کچھ اور طرح کے خدشات اور وسوسوں نے مجھے گھیر لیا، میں نے سوچا لاٹری والی خبر صیغہٴ راز میں تو رہے گی نہیں، اگر یہ ویسے ”لیک“ نہ ہوئی تو میرے رہن سہن سے سب کو پتا چل جائے گا کہ کہیں سے لمبا پیسہ آیا ہے، اس کے بعد مجھے ڈاکوؤں اور اغواء برائے تاوان والوں سے بچنے کے لئے ”عمر قید“ کی سزا برداشت کرنا پڑے گی۔ میرے گھر کے باہر مسلح پہریدار کھڑے ہوں گے، گھر کو قلعہ کی صورت دینا ہو گی، اس کی کنکریٹ کی دیواریں اونچی کر کے ان میں بجلی کا کرنٹ چھوڑنا ہو گا، گھر سے نکلتے وقت مسلح گارڈ سے بھرے دو ”ڈالے“ میری کار کے آگے پیچھے ہوں گے۔ میں لکشمی چوک جا کر کڑھائی گوشت کھانے اور باہر بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر مالشیے سے مساج کرانے کی لذت سے محروم ہو جاؤں گا، میرا لکھنا لکھانا چھوٹ جائے گا کیونکہ میں ڈرائنگ روم لکھاری نہیں ہوں، مجھے تو اپنے موضوعات گلیوں، بازاروں اور لوگوں کے ہجوم میں سے تلاش کرنا ہوتے ہیں۔ ایک فکر مجھے یہ بھی دامن گیر ہوئی کہ دولت کی فراوانی مجھے پاکستان سے بیزار کر دے گی، میں اس میں کیڑے نکالنا شروع کر دوں گا اور ”مسٹر جناح“ پر پھبتیاں کسنے لگوں گا اور ہاں مجھے دو تین شادیاں بھی تو کرنا پڑیں گی کیونکہ پیسہ پاس ہو تو بڑھاپے کے دالان میں جوانی رقص کر سکتی ہے، پھر ان شادیوں کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوں گے میرا دھیان ان کی طرف بھی گیا۔
ایک فکر مجھے یہ بھی لاحق ہوئی کہ میرے بیٹے اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ہفتے کی شام ہمارے ساتھ گزارتے ہیں اور اپنی ماں کے ہاتھوں سے بنائے گئے کھانے مزے لے لے کر کھاتے اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ اس دن مجھے اپنا گھر جنت کا ایک ٹکڑا لگتا ہے، جس میں بچوں کی چہچہاہٹ اسے جنت سے کہیں زیادہ پُر کشش بنا دیتی ہے، مجھے یہ خوف دامن گیر ہو گیا کہ میری یہ جنت، دولت کے ملبے تلے دب جائے گی، بچے کینیڈا اور امریکہ شفٹ ہو جائیں گے اور پھر وہ اس وقت واپس آئیں گے، جب انہیں جائیداد کے بٹوارے کے لئے قانونی ضابطے پورے کرنا ہوں گے۔
میں نے بہت کوشش کی کہ ان وسوسوں سے چھٹکارا حاصل کر کے اس نئی زندگی کا تجربہ کروں لیکن مجھے اس مصنوعی زندگی میں کوئی کشش نظر نہ آئی۔ مجھے ان لمحوں میں اپنی محدود خواہشات پر رونا بھی بہت آیا اور میں نے خود پر لعنت ملامت بھی بہت کی لیکن خون میں رچی بسی سوچیں انسان کا پیچھا کہاں چھوڑتی ہیں؟ تاہم دل کے ایک گوشے سے یہ آواز بھی آ رہی تھی کہ اتنی رقم سے یہ بے اعتنائی اچھی نہیں، کسی دانا دوست کے پاس جاؤ، جو تمہیں اس زندگی کی خوبصورتیوں کا قائل کر سکے، چنانچہ میں سیٹھ مکرم کے پاس گیا اور اسے اپنا مسئلہ بتایا، اس نے کہا ”اگر تمہاری 25ارب کی لاٹری نکلی تو میں تم سے 27ارب میں خرید لوں گا“ وہ اپنی بلیک منی کو وائٹ کرنے کے چکر میں تھا، اسے میرے مسئلے کا اندازہ ہی نہیں تھا، اس سے مایوس ہو کر میں نے ایک اور ارب پتی دوست سے مشورہ کیا کہ شاید وہ کسی دلیل سے مجھے قائل کر لے کہ اتنی بڑی رقم سے وہ مسائل پیدا نہیں ہوں گے جو تم سوچ بیٹھے ہو، مگر اس نے کہا ”جو بات تم سمجھنا چاہ رہے ہو، وہ سمجھائی نہیں جا سکتی، صرف تجربہ کی جا سکتی ہے، چنانچہ اگر تمہاری 25ارب کی لاٹری نکل آئی تو یہ ساری رقم تم مجھے دے دینا، ان سارے مسائل کا میں سامنا کر لوں گا جو تمہیں اس دولت سے وابستہ نظر آتے ہیں“۔
میں سمجھ گیا کہ لامحدود خواہشات اور محدود خواہشات کے درمیان مفاہمت کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ یہ دو الگ الگ دنیائیں ہیں، میں چونکہ اپنی دنیا میں ہی خوش ہوں چنانچہ مجھے کسی ایسے تجربے کی ضرورت نہیں جو مجھ سے میری خوشیوں بھری موجودہ زندگی چھین لے، بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ نامعلوم پر معلوم کو ترجیح دینا ہی بہتر ہے، سو میں نے اپنی جیب میں سے لاٹری کا وہ ٹکٹ نکالا جس نے میرا چین برباد کر دیا تھا اور اسے پرزہ پرزہ کر کے تیز ہواؤں کے سپرد کر دیا اور اب! ان سب افراد سے معذرت، جن کے لئے لاٹری نکلنے کی صورت میں، میں نے بہت سے منصوبے بنائے تھے۔ خصوصاً اپنی بیگم سے معذرت، مگر مجھے یقین ہے کہ وہ پچاس کروڑ روپے کے مالیت کے ہیروں کے ہار سے محرومی کا صدمہ جلد بھلا نہ پائے گی!