نہ زمین پھٹ رہی ہے نہ ہی آسمان رو رہا ہے مگر میرا دل و دماغ پھٹا جا رہا ہے اور سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کیا لکھوں اور کیسے لکھوں ۔ شدید غصہ جو کہ اپنی انتہا پر ہے اور الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ایک بے بسی کا عالم ہے ۔ یہ ہمارے ملک کا کوئی پہلا واقعہ نہیں اس طرح کے کئی واقعات روز رونما ہو رہے ہیں اور ان کا مداوا کوئی نہیں کر رہا اور نہ کوئی اس بارے میں ہی سوچ رہا ہے۔ روز صبح کے اخبارات میرے ملک کی نئی نئی کہانیاں لے کر آتے ہیں اور ہم قلم کے مزدور ان کو پڑھنے اور ان پر تبصرہ کرنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں ۔
ایسی ہی ایک خبر آج پھر پڑھنے کو ملی ہے جو کہ ایک باپ کی انتہائی بے بسی کی کہانی ہے، خبر کے مندرجات کے مطابق پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں کے انسٹھ سالہ باپ جو کہ وزارت داخلہ میں نائب قاصد کی ملازمت کر رہا تھا اس نے اپنے ہی دفتر کی چھت سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ بلندی سے گرنے کی وجہ سے اس کا ڈھانچہ بری طرح توڑ پھوڑ کا شکار ہو گیا ۔ متوفی اقبال پہلے بیماری کی وجہ سے رخصت پر تھا لیکن اس نے اپنی بیماری کی چھٹی ختم کرکے نوکری پر حاضری دے دی اور وہ اپنے بیٹے کے ساتھ دفتر پہنچا اور اپنی جگہ اپنے بیٹے کی ملازمت کی درخواست دی اسے بتایا گیا کہ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ دوران ڈیوٹی باپ کا انتقال ہو جائے جس پر اس نے اپنے بیٹے کو وہیں چھوڑا اور دفتر کی چھت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی تا کہ اس کے بیٹے کو ملازمت مل جائے اور اس کا مستقبل محفوظ ہو جائے ۔
یہ تھی وہ خبر جس کو پڑھ کر میرے حواس جواب دے گئے، اسی طرح کی اور کئی خبریں روز اخباروں کی زینت بن رہی ہیں روز گار نہ ملنے کی وجہ سے میرے ملک کے معصوم شہری اپنی جانوں سے خود ہی ہاتھ دھو رہے ہیں، خودکشیوں کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ ان معصوم لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ خودکشی حرام ہے لیکن ان کو یہ ضرور معلوم ہے ان کو روز گار کی فراہمی میں حکومت ناکام ہو چکی ہے اور وہ اپنے حالات کے ہاتھوں اس قدر مجبور کر دیے گئے ہیں کہ حرام موت کو خوشدلی سے گلے لگا کر اس میں اپنی پریشانیوں کا حل ڈھونڈ رہے ہیں اور روز روز کی پریشانیوں سے نجات پانے کا ان کے پاس یہی ایک نسخہ ہے جس کو وہ اپنے آپ پر استعمال کر رہے ہیں ۔ ہم سب کسی نہ کسی شکل میں اپنے کنبے کے سربراہ کی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔
آپ اس باپ کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں جو پہلے صبح بیماری کی حالت میں خود تیار ہوا ہو گا اور اپنے ساتھ اپنے خوبرو جوان بیٹے کو خوبصورت لباس پہنا کر دل میں اس کی نئی زندگی شروع کرنے کے ارمان سجا کر بڑے فخر سے اپنے دفتر کے لیے روانہ ہوا ہو گا اور راستے میں بیٹے کو اپنے صاحب سے بات کرنے کا سلیقہ بھی ضرور بتایا ہو گا لیکن جب اس کو یہ بتایا گیاکہ اس کی وفات کی صورت میں ہی اس کا بیٹا یہ نوکری حاصل کر سکتا ہے تو اس بوڑھے بیمار باپ نے اپنی اولاد کے لیے قربانی کا فیصلہ کس بوجھل دل سے کیا ہو گا اور اپنے آپ کو مستقبل میں اپنے کنبے کی کفالت کے لیے حرام موت کو گلے لگانے پر مجبور ہو گیا ہو گا اور اپنے معصوم بچوں کی خواہشوں کے ارمان دل میں سجا کر اس بے رحم دنیا سے رخصت ہو گیا ہو گا۔
حالات کس قدر بے رحم ہو گئے ہیں ہم مسلمان جن کے مذہب میں خودکشی کو حرام قرار دے دیا گیا ہے وہ ناامیدی کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اپنی اولاد کے لیے اپنی ابدی زندگی کو بھی برباد کر رہے ہیں ۔مال اور اولاد کو اس دنیا کا فتنہ قرار دیا گیا ہے اور اس سے پناہ مانگی گئی ہے لیکن ہمارے ملک میں روزگار کا مسئلہ اتنا پیچیدہ اور ناممکن بنا دیا گیا ہے کہ ہم اولاد کی خوشیوں کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔ آپ اس باپ کی بے بسی اور مایوسی کا اندازہ لگائیں کہ جب وہ شام کو اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے ان کو روٹی کا نوالہ بھی نہ دے سکے تو وہ اس مایوسی اور بے بسی کی انتہا میں خودکشی نہ کرے تو اور کیا کرے ۔ ایک باپ ہونے کے ناطے اس واقعہ کا نوحہ لکھنے کے لیے الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ۔
جذبات کا ایک طوفان میرے اندر برپا ہے۔ کیا بطور قوم ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر روز کتنے لوگ اپنی دو وقت کی روٹی کے لیے اپنی جان سے جا رہے ہیں کہاں ہیں میرے ملک کے حکمران جن کو حضرت عمر ؓ کے دور ِ حکمرانی کی مثالوں سے تو فرصت نہیں لیکن کیا انھوں نے کبھی ان مثالوں پر عمل کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ بھوک اور افلاس لکھنے کو دو بڑے لفظ ہیں لیکن جب ان سے واسطہ پڑتا ہے اور جن پر یہ حالات بیتتے ہیں وہ ہی اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہمارے ملک کو صدقہ و خیرات کرنے والا سب سے بڑا ملک سمجھا جاتا ہے اور ملک کے بڑے بڑے کاروباری افراد ماہ رمضان کے دوران مکہ و مدینہ میں سحر و افطار کا بندوبست کرتے ہیں ان کو کون بتائے کہ ہمارے اپنے ملک میں روز لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی کو مجبور ہیں۔ مکہ اور مدینہ میں تو ہزاروں لوگ یہ بندوبست کرتے ہیں لیکن ہمارے اپنے ملک میں بھوک کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے والوں کی بھوک مٹانے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔
مایوسی گناہ ہے اور اﷲ کی رحمت سے نااُمید ہونا کفر کے زمرے میں آتا ہے ہم نے بدقسمتی سے زمین پر اپنے کئی خدا اور روزی رساں بنا رکھے ہیں لیکن اﷲ فرماتے ہیں کہ جو کچھ مانگنا ہے مجھ سے مانگو اور کسی کو اپنا وسیلہ نہ بناؤ اور میری رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو لیکن ہمارے معاشرے کے حالات اس طرح کے ہو گئے ہیں کہ ہم نے اﷲ کی ذات پر توکل چھوڑ دیا ہے اور ہمارا اعتقاد کمزور ہو گیا ہے.
اس کی بنیادی وجہ معاشرے میں عام ناانصافی ہے جس نے کئی خرابیوں کو جنم اور ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم زندہ رہنے کے لیے اپنے انھی زمینی خداؤں کے مرہون منت رہیں، یہ ایمان کی کمزور ترین نشانی اور اﷲ کے احکامات کی نفی ہے جو کہ ہمیں کفر کی جانب لے جاتی ہے۔میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ میرے ملک کے ارباب اختیار اپنے عوام کو روزگار کی سہولت دینے میں ناکام ہو چکے ہیں اور انھوں نے عوام کے لیے روزگار کے ذرایع پیدا کرنے کے بجائے سڑکوں اور پلوں کے تحفے دیے ہیں جن کی عوام کو ضرورت تب ہے جب ان کے پاس دو وقت کی روٹی کا سامان ہو ورنہ وہ انھی سڑکوں پر گاڑیوں کے نیچے آ کر اور پُلوں سے کود کر خودکشیاں کرتے رہیں گے۔