کراچی (ویب ڈیسک) نجی ٹی وی نیوز چینل کے پروگرام میں میزبان نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ الزامات لگ رہے ہیں، نیب خاص طور پر نیب لاہور مسلسل تنقید کی زد میں ہے، موقف میں تبدیلی عمران خان خود ہی فیصلہ کریں کہ یہ وہی یو ٹرن ہیں جو
اگر نپولین اور ہٹلر لے لیتے تو تباہی سے بچ جاتے یا پھر یہ وعدہ خلافیاں ہیں جن کا نپولین اور ہٹلر کے یوٹرن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر پروفیسر مجاہد کامران نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی بات درست ہے نیب کے حوالات میں میری فواد حسن فواد سے ملاقات نہیں ہوئی، جب ہم جیوڈیشل ہوگئے تو وہاں نیب کے قیدیوں کیلئے ایک ہی بلڈنگ مختص ہے ، جوڈیشل ریمانڈ میں ڈسٹرکٹ جیل میں ہی میری فواد حسن فواد سے ملاقات ہوئی تھی، میں اپنا نکتہ نظر بیان کرنے میں دلچسپی رکھتا ہوں کیونکہ نیب کا موقف آتا رہا ہے لیکن ہمارا موقف نہیں آیا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا کہ نیب کی حراست میں میری کمر میں کوئی تکلیف نہیں تھی، چیئرمین نیب کے دورے کے بعد ہم اساتذہ کیلئے چھ چارپائیوں کا انتظام کیاگیا، میں جس کمرے میں تھا اس میں 2 اور افراد بھی موجود تھے جو نیچے میٹرس پر سوتے تھے، مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں چارپائی پر سوتا اور کمرے میں دیگر لوگ زمین پر سوتے اس لئے میں نے چارپائی نہیں لی۔ پروفیسرمجاہد کامران نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس لینے کے بعد نیب کے ہمارے ساتھ رویے میں تبدیلی آئی،
نیب کے سیلز پر تالا لگا ہوتا ہے چیف جسٹس کے نوٹس لینے کے بعد چیئرمین نیب نے دورے میں ہدایت کی کہ اساتذہ کے سیلز کو تالا نہیں لگایا جائے گااس وجہ سے حالات ہمارے لیے بہتر ہوگئے تھے،وہاں ہر کمرے میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں، میں نے واش روم میں کیمرے کا نہیں کہا تھا بلکہ شاور میں کیمرہ ہے۔ڈاکٹرمجاہد کامران نے بتایا کہ یونیورسٹی میں تقرریاں میں نے نہیں یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے کی تھیں، یونیورسٹی نے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وائس چانسلر، رجسٹرار ، شعبہ جات کے سربراہ اور سنڈیکیٹ کے دو رکن بھی شامل تھے، نیب نے ہائیکورٹ میں تسلیم کیا کہ تقرریوں میں کسی سے پیسے نہیں لیے گئے ، نہ کسی رشتہ دار کی تقرری ہوئی اور نہ ہی کوئی ایسا شخص تعینات کیا گیا جو مکمل اہلیت نہ رکھتا ہو، جسٹس عظمت شیخ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کہا تھا کہ تقرریاں ٹھیک نہیں ہوئیں انٹرنل انکوائری کی جائے، یونیورسٹی کے چانسلر یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اس معاملہ میں انکوائری کرنے کیلئے کہا جاسکتا تھا لیکن ہمیں گرفتار کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ مجاہد کامران نے کہا کہ گرفتاری کے وقت
میں نے پوچھا کہ جو پوچھنا چاہ رہے ہیں اس کیلئے کیا گرفتاری ضروری ہے، مجھے جواب ملا کہ ہاں یہ ہمارا اختیار ہے اس لئے آپ کو گرفتار کیا ہے،ہمیں گرفتار کر نا اور ہتھکڑیاں لگانے کا مقصد تضحیک کرنا تھا، چیف جسٹس کے نوٹس لینے اور سوشل میڈیا میں طوفان کھڑے ہونے سے یہ بات ناپسندیدہ قرار پائی، نیب کے اندر اگر کچھ لوگ ہماری تضحیک کرنا اور ہمیں نشان عبرت بنانا چاہتے تھے تو ان کا مقصد پورا نہیں ہوا لیکن وہ انتقامی کاررروائی کرسکتے ہیں، نیب اپنی تشریح پر گرفتاریاں کرتا ہے کہ جس طرح وہ معاملہ کو سمجھ رہے ہیں وہی صحیح ہے، نیب سے اگر غلطی ہوجائے تو یہ اسے کبھی تسلیم نہیں کرتے ہیں، نیب کی کوشش ہوتی ہے کہ غلطی ہوگئی ہے تو اس پر لوگوں کو گرفتار کر کے کیس چلایا جائے، اب جو تنازع پیدا ہوگیا ہے اس کی وجہ سے نیب ہمارے خلاف کوئی نیا کیس بھی بناسکتا ہے۔ مجاہد کامران کا کہنا تھا کہ نیب کی پوری کوشش تھی کہ ہماری ضمانت نہ ہو، جج صاحبان کا ممنون ہوں جنہوں نے معاملہ کو سمجھا بلکہ برہمی کا اظہار بھی کیا، نیب کو تھوڑا خوف خدا کرنے کی ضرورت ہے، چیئرمین نیب نے ملاقات میں بتایا کہ میں نے تین ماہ پہلے حکم دیا تھا کہ ہتھکڑیاں نہیں لگائی جائیں گی، نیب عدالتوں کے 88فیصد فیصلے ہائیکورٹ میں مسترد کردیئے جاتے ہیں، معاملہ متنازع ہوگیا اس لئے نیب کی پوری کوشش ہوگی کہ ہمیں کسی اور کیس میں بھی دھرلیا جائے،نیب کو رویئے میں تبدیلی کرنی چاہئے، ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانا نیب کا اصل کام ہے، نیب کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس اختیارات بہت زیادہ ہیں، نیب قانون میں تھوڑی اصلاح کی ضرورت ہے، نیب قانون کے تحت 90روز کا ریمانڈ بہت زیادہ ہے جبکہ قتل کے مقدمہ میں 14دن کا ریمانڈ ہوتا ہے، چیف جسٹس ، میڈیا ، وکلاء، اساتذہ، سوشل میڈیااور لاہور یونیورسٹی کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لاہور یونیورسٹی کے بانی نے میری گرفتاری کی خبر سننے کے بعد مجھے تاحیات ریکٹر بنانے کا فیصلہ کیا، میری اہلیہ نے میڈیا پر میری جنگ لڑی اور وکلاء کو اکٹھا کیا، اللہ کا شکر اد ا کرتا ہوں کہ ہم نکل آئے ہیں ورنہ وہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔