نیب ریفرنسز فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کا حکم، نواز شریف، مریم نواز، کلثوم نواز کی عیادت کیلئے لندن جانا چاہتے ہیں تو درخواست دیں، ”اگر زبانی بھی درخواست کی جائے تو اجازت دیں گے” چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
اسلام آباد: (اصغر علی مبارک) سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنانے کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں احتساب عدالت کی درخواست پر نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے حوالے سے سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے احتساب عدالت کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف دائر تینوں ریفرنسز کا ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے ریفرنسز میں اپنے دلائل 6 ہفتوں میں مکمل کرنے کے حوالے سے دائر کی گئی درخواست بھی مسترد کردی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ’ اگر نواز شریف اور مریم نواز لندن میں زیرِ علاج بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے جانا چاہتے ہیں تو ہمیں درخواست دیں اور لندن چلے جائیں‘۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’مجھے بتائیں نواز شریف عیادت کے بعد کب واپس آئیں گے‘۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ تشہیر کے لیے کہتے ہیں کہ ہمیں کلثوم نواز کی عیادت کے لیے اجازت نہیں دی گئی، اگر زبانی بھی درخواست کی جائے گی تو ہم اجازت دیں گے‘۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے احتساب عدالت کو ہدایت دی کہ ’عدالت ہفتہ کے روز بھی تینوں ریفرنس کی سماعت کرے، کیونکہ اس کیس سے ملزمان اور قوم دونوں پریشان اور اذیت کا شکار ہیں‘۔یاد رہے کہ گزشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔واضح رھے اسلام آباد کی احتساب عدات میں نیب ریفرنسز کی سماعت گزشتہ برس 13 ستمبر سے جاری ہے، تاہم سپریم کورٹ کی متعین کردہ مدت رواں برس مارچ میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی تھی۔نیب ریفرنسز کی توسیع شدہ مدت مئی میں اختتام پذیر ہوئی تاہم احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ٹرائل کی مدت میں مزید توسیع کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالتِ عظمیٰ نے قبول کرلیا اور ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کی تھی ۔سپریم کورٹ کی توسیع شدہ مدت جون میں اختتام ہونے والی تھی، تاہم احتساب عدالت نے ٹرائل کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے 4 جون کو ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔خیال رہے کہ شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف زیر سماعت ریفرنسز کی مدت 9 جون کو ختم ہوچکی ہے۔اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ وہ ایک خط لکھیں گے، جس میں سپریم کورٹ سے ریفرنس کی سماعت کی مدت میں مزید توسیع کی درخواست کریں گے۔گزشتہ برس 27 جولائی کو پاناما پیپرز کے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کو نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز، دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین جبکہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف 3 ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور ان ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹانے کی ہدایت کی گئی تھی۔سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں نیب کی جانب سے ستمبر 2017 میں ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی مہلت مارچ 2018 میں ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد نیب کی جانب سے مہلت طلب کرنے پر 2 ماہ کی توسیع دی گئی تھی۔بعد ازاں گزشتہ ماہ نیب کی جانب سے دوبارہ درخواست پر عدالت نے ان ریفرنسز کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کی تھی اور نیب ریفرنس مکمل کرنے کے لیے 9 جون تک کا وقت دے دیا تھا۔ اب تک ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔اس کے علاوہ احتساب عدالت میں ریفرنسز کے دوسرے راؤنڈ میں داخل ہونے کی وجہ سے العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز میں نواز شریف کا بیان ریکارڈ ہونا باقی ہے۔یاد رہے کہ اس وقت العزیزیہ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما پیپرز کیس میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی )کے سربراہ واجد ضیاء کے بیان ریکارڈ کرانے اور اس پر جرح کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔واجد ضیاء کے بعد استغاثہ (نیب) کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس میں حتمی گواہ پیش کیے جائیں گے۔احتساب عدالت میں سماعت کے دوران واجد ضیاء نے جرح کے دوران بتایا کہ گلف اسٹیل ملز کے 1978 کے فروخت معاہدے میں 2 لوگ محمد حسین اور طارق شفیع شامل تھے۔انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کے دوران جے آئی ٹی کی جانب سے حسین نواز کے قانونی وارث شہزاد کے بارے میں پتہ نہیں لگایا گیا اور اس معاملے میں طارق شفیع سے بھی سوالات نہیں کیے۔سماعت کے دوران واجد ضیاء کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ جے آئی ٹی نے 1980 میں گلف اسٹیل ملز کے بقیہ شیئر کی فروخت کے معاہدے کے حوالے سے تحقیقات میں محمد عبداللہ قائد اہلی کو شامل کرنے کی کوشش نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 1980 کے فروخت معاہدے کے گواہ عبدالوہاب ابراہیم گلاداری اور محمد اکرم کے بیان ریکارڈ کرنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔