صحابی سے صحیح سند کے ساتھ ایسا اثر ثابت کریں جسم میں یہ صراحت ہو کہ جس کا جمعہ فوت ہو جائے وہ صرف دور کعت نماز جمعہ ادا کرے یعنی اکیلا ہی جمعہ پڑھ لے اور جو دلائل ظاہری صاحب نے عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ سے ذکر کیے ہیں ان کا محاکمہ اوپر کر دیا گیا ہے کہ ان کی اسانید بھی درست نہیں اور مرادو مقصود بھی وہ نہیں ہے جو سمجھا گیا ہے ۔اشکال :ظاہری صاحب نے نماز جمعہ فوت ہوجانے پر جمعہ ہی ادا کرنے کے بارے جو روایت درج کی ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ اصبہان 200/2)میں ہے کہ ”موسی بن سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس سے سوال کیا کہ اگر میرا بطحاجگہ میں رہتے ہوئے جمعہ فوت ہو جائے تو میں کتنی رکعت ادا کروں تو انہوں نے فرمایا دور کعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (یہی )ہے یہ روایت سند اموقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہے جیسا کہ کتب اصطلاحات المحد ثین میں صراحت موجود ہے شیخنا شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ صاحب راشدی فرماتے ہیں کہ یہ روایت ثابت ہے ۔انتہی ازالہ:اولاً :یہ ظاہر ی صاحب کا بھی شیخ بدیع پر محض حسن ظن ہے جس کی قطعا کوئی حقیقت نہیں اور یہ ان کے غرائب میں سے ہے ۔ثانیا:ظاہری صاحب پر لازم ہے کہ وہ اس روایت کی سند میں محمد بن نوح بن محمد کی توثیق ثابت کریں اور احمد بن الحسین کا بادلیل تعین کریں جب تک اس روایت کے راویوں کا تعین اور توثیق ثابت نہیں کرلیتے اتنی دیر تک اس روایت کو بطور دلیل تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ جس کا جمعہ فوت ہو جائے وہ اکیلا جمعہ ہی ادا کرے گا اور دورکعت پڑھے گا ان کے پاس اس موقف پر کوئی پختہ دلیل موجود نہیں اور صحابہ کرام رضیاللہ عنہ سے یہی بات ثابت ہے کہ جس کا جمعہ فوت ہو جائے وہ چار رکعات ادا کرے اور صحابہ میں اس بات کا مخالف کوئی ایک بھی نہیں ہے من ادعی فعلیہ البیان۔یہ سطور مختصر سے وقت میں تحریر کردی ہیں اگر ظاہری صاحب نے اس پر کچھ لکھا تو پھر اللہ کی توفیق سے مفصل جواب تحریر کریں گے ۔ان شاء اللہ(آپ کے مسائل اور اُن کا حل کتاب نمبر 3)
ہمارے نزدیک صحیح اور درست بات یہی ہے کہ جس شخص کا جمعہ فوت ہو جائے وہ نماز ظہر ادا کرے گا جمعہ فوت ہونے کی صورت میں نماز جمعہ ہی ادا کرنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں جیسا کہ ہم آگے چل کر ذکر کریں گے اس سلسلہ میں
ہم نے چند آثار صحابہ پیش کیے جن میں سے ایک اثر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے :”اجب آدمی جمعہ والے دن ایک رکعت پالے تو وہ اس کے ساتھ پچھلی رکعت ادا کرلے اگر لوگوں کو جلسہ کی حالت میں پالے تو چار رکعت ادا کرلے۔اس روایت کی سند بالکل صحیح اور سنہری ہے امام عبدالرزاق نے اسے بطریق معمرعن ایوب عن نافع ان ابن عمر قال :روایت کیا ہے معمر بن راشد ثقہ ثبت فاضل ہیں۔اور ایوب سختیانی ثقہ ثبت حجة جن کبار الفقہاء العباد ہیں (تقریب مع تحریر159/1)نافع ابو عبداللہ المدنی مولی ابن عمر ثقہ ثبت فقیہ مشہور (تقریب مع تحریر 9/4) اس صحیح اثر کو ظاہری صاحب نے چھوا تک نہیں امام بغوی رحمة اللہ شرح السنة 273/4میں رقمطراز ہیں کہ ”جو شخص امام کو نماز جمعہ میں پالے ۔اگر تو اس کے ساتھ ایک مکمل رکعت پالے تو اس نے جمعہ پالیا پھر جب امام سلام پھیردے تو اس کے ساتھ پچھلی رکعت ملالے تو جمعہ مکمل ہو گیا۔اور اگر امام کے ساتھ مکمل ایک رکعت نہ پائے جیسا کہ دوسری رکعت میں امام کورکوع کے بعد اٹھنے کی صورت میں پائے تو اس کا جمعہ فوت ہو گیا اب اس پر واجب ہے کہ وہ چار رکعات نماز ادا کرے۔اس لیے کہ ابوھریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس آدمی نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز کو پالیا۔ “اور اکثر احل علم کا یہی
قول ہے کہ یہ بات عبداللہ بن مسعود ‘ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہ سے بیان کی گئی ہے اور سعید بن المسیب ‘علقمہ اسود ‘عروہ‘حسن بسری ‘زھری ‘ثوری ‘مالک‘اوزاعی‘عبداللہ بن مبارک ‘شافعی ‘احمد اور اسحاق بن راھویہ کا یہی قول ہے ۔امام بغوی کی توضیح سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص کا جمعہ فوت ہو جائے اس پر چار رکعات ادا کرنا لازم ہے ۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کی تائید ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے ۔ابونضرة کہتے ہیں :ایک آدمی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اس نے کہا:جس آدمی کا جمعہ فوت ہو جائے وہ کتنی نماز ادا کرے ؟عمران رضی اللہ عنہ نے کہا :اس کا جمعہ کیوں فوت ہوتا ہے ؟جب آدمی پیٹھ پھیرکر جانے لگا تو عمران رضی اللہ عنہ نے کہا :بہر کیف اگر میرا جمعہ فوت ہوجاتا تو میں چار رکعات ادا کرتا۔اس روایت کے تمام راوی اعلیٰ درجے کے ثقات ہیں اس میں ایک علت یہ ہے کہ بعض ائمہ نے یحی بن ابی کثیر کو مدلس کہا ہے اور شیخ ظاھری جو مد لسین کے طبقات کے قائل ہیں جیسا کہ ان کے مضمون سے ظاہر ہے کے نزدیک یہ علت قادحہ نہیں ہے کیونکہ حافظ صلاح الدین العلائی نے جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص130اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے طبقات المدلسین ص 36میں انہیں طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے اور طبقہ ثانیہ کے بارے ان دونوں بزرگوں نے یہ قاعدہ لکھا ہے کہ: طبقہ ثانیہ کے
مدلسین کی تدلیس کوائمہ نے برداشت کیا ہے اور صحیح میں ان کی حدیث کی تخریج کی ہے اگر چہ سماع کی تصریح نہ کی گئی ہو اور یہ ان کی امامت یاروایت میں قلت تدلیس کی وجہ سے ہے یا اس لیے کہ وہ ثقہ کے سواکسی سے تدلیس نہیں کرتے۔اور یحی بن ابی کثیر کے بارے امام ابو حاتم ہیں:”یہ ثقہ کے سواکسی سے روایت نہیں کرتے ۔“لہٰذا یہ روایت بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کی شاھد ہے اور جس کا جمعہ فوت ہو جائے اس کے لیے چار رکعات ادا کرنے پر دلالت کرتی ہے ۔اس کے علاوہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت درج کی کہ:”جس آدمی نے جمعہ کی ایک رکعت پالی وہ اس کے ساتھ پچھلی رکعت ملالے اور جس کی دورکعت فوت ہو جائیں وہ چار رکعت ادا کرے۔ “اسے طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے ۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے ظاہری صاحب نے لکھا اس روایت کا مدارابواسحاق السبیعی پر ہے پھر انہوں نے طبرانی کبیر 9545تا 9549سے اس کے مختلف طرق ذکر کیے اور میرے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے ابو اسحاق السبیعی کو مدلس گرد انتے ہوئے روایت کو ضعیف قرار دیا ۔اور لکھا کہ ”معلوم ہوا کہ شیخ صاحب کی مستدل روایات ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں امام ھیثمی کا قول اس کی سند حسن ہے ان کا وہم ہے اسی طرح سے دوسری روایت کے متعلق ان
کا فر مان اس کے راویوں کی تو ثیق کی گئی ہے مردود وغیرہ حسن ہے اور شیخ صاحب کا امام ھیثمی کے قول پر اعتماد محض حسن ظن ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ “یاد رہے کہ علامہ ھیثمی کی تحسین پر راقم نے جو اعتماد کیا تھا اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ طبرانی کبیر راقم کے پاس موجود نہیں دوسری بات یہ ہے کہ اگر چہ اس میں ابو اسحاق السبیعی ہیں جو کہ مدلس ہیں لیکن اس روایت میں جو بات ذکر کی گئی ہے اس کے کئی ایک شواہد ہیں جیسا کہ اوپر بسند صحیح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر ہے جس پر ظاہری صاحب نے خاموشی اختیار کی ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کرسکے اور نہ ہی کوئی علت قادحہ اس کے ضعف کی پیش کرسکتے ہیں ۔اس اثر کو شواھد کی بنا پر راقم حسن سمجھتا ہے اور یہ بحمد اللہ وہم نہیں ہے اس اثر کو جہاں علامہ ھیثمی نے حسن قرار دیا ہے وہاں سیدسابق نے بھی فقہ السنہ275/1میں حسن قرار دیا ہے ۔اور علامہ ھیثمی پر اعتماد صرف حسن ظن نہیں بلکہ دلیل کی بنیاد پر ہے ۔پھر ظاہری صاحب لکھتے ہیں ”حضرت شیخ فرماتے ہیں ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جس نے جمعہ کی ایک رکعت پالی وہ اس کے ساتھ پچھلی رکعت ملالے اگر لوگوں کو بیٹھا ہوئے پائے تو ظہر کی چاررکعت ادا کرے۔ (دارقطنی) اس کی سند میں
یاسین بن معاذ متروک راوی ہے یا سین بن معاذ کی امام زھری رحمة اللہ علیہ سے اس روایت میں کئی ایک ضعفاء متابع ہیں “پھر وضاحت کے عنوان سے رقمطراز ہیں ”فضیلة الشیخ کا یہ فرمانا کہ یاسین بن معاذ کی امام زھری سے اس روایت میں کئی ایک ضعفاء متابع ہیں اس کے لیے چندان مفید نہیں کیونکہ اصل روایت کے بیان کرنے میں ہی اختلاف ہے اور جس روایت کی متابعت ثابت کی جارہی ہے اس کے الفاظ ہی غیر محفوظ ہیں ۔ “پھر اس کے بعد ظاہری ابن حجر کی طویل عبارت التلخیص الحبیر کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں :ازالہ :ظاہری صاحب کا اس روایت پر بحث کرنا اور ابنحجر کی التلخیص کا حوالہ دینا تحصیل حاصل اور ان کی ظاہر یت کا شاخسانہ ہے کیونکہ راقم نے مجلة الدعوة جولائی 2002ص42میں لکھا ہے کہ ”البتہ اس مسئلہ کے بارے مرفوع روایت ضعیف ہے جس کی مختصر سی توضیح درج ذیل ہے اس کی سند میں یاسین بن معاذ متروک راوی ہے یاسین بن معاذ کی امام زھری سے اس روایت میں کئی ایک ضعفاء متابع ہیں ۔راقم کی اس عبارت سے یہ بات عیاں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس مسئلہ میں مرفوع روایت ضعیف ہے ہم نے اس پر ضعیف کا حکم لگا کر ال التلخیص کی طرف راہنمائی کی ہے اس لیے اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ظاہری صاحب کا التلخیص سے مفصل عبارت ذکر کرنا تحصیل حاصل نہیں تو اور کیا ہے محض مضمون کو طوالت دینے
کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے البتہ اس روایت کے الفاظ کو غیر محفوظ قرار دینے کے لیے جو زور صرف کیا گیا ہے اور ائمہ کی تو ضیحات بحوالہ التلخیص ذکر کی گئی ہیں ان کا مطلوب یہ ہے کہ حدیث ابی ہریرہ کے اصل الفاظ :ہیں اور غیر محفوظ ہیں یعنی اس حدیث میں عام نماز کے بارے میں ہے کہ جس نے ایک رکعت پالی اس نے اس نماز کو پالیا۔جمعہ کے بارے نہیں ہے کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت پالی ۔تو یاد رہے کہ اس سلسلہ میں حدیث ابی ہریرہ تو سنداضعیف ہے جیسا کہ ہم نے خود اپنے مضمون میں اس کی مختصر سی وضاحت کی تھی لیکن”جس نے جمعہ کے دن ایک رکعت پالی تو اس نے جمعہ کو پالیا وہ اس کے ساتھ پچھلی رکعت ملا لے ۔“کے الفاظ کے ساتھ یہ روایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے ۔یہ روایت سنن الدارقطنی(1092(طبرانی اوسط(3200)طبرانی صغیر اور مجمع البحرین فی زوائد المعجمین(990)میں موجود ہیں طبرانی کی سندیوں ہے ۔1۔طبرانی کے استاذ علی بن سعید بن بشیر بن مھر ان الرازی ہیں جن کے متعلق امام ذھمی نے لکھا ہے : مسلمہ بن قاسم فرماتے ہیں ۔ابویعلیٰ الخلیلی کہتے ہیں : 2۔الجراح بن ملیح البھرانی :امام نسائی نے لیس بہ باس امام ابوحاتم اور امام ابن عدی نے اسے صالح الحدیث قرار دیا ہے اسی طرح ابن معین نے بھی لیس بہ باس کہا ہے ۔3۔ابراہیم بن سلیمان الدباس کو ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل 103/2)
میں ذکر کرکے سکوت اختیار کیا ہے اور ابن حبان نے کتاب الثقات 69/8میں ذکر کیا ہے ۔4۔عبدالعزیز بن مسلم القسمی ثقہ عابد (تقریب مع تحریر372/2)ابن معین ‘ابوحاتم ‘عجلی ‘ابن نمیر‘ذھمی اور نسائی وغیرھم نے اسے ثقہ قرار دیا ہے (تہذیب 473/3) باتی یحی بن سعید اور نافع مشہور ثقات راویوں میں سے ہیں اور عبدالعزیز بن مسلم سے روایت کرنے میں ابراہیم بن سلیمان الدباس کی عیسی بن ابراہیم لشعیری نے متابعت کررکھی ہے اور عبدالعزیز بن مسلم کی یحی بن سعید سے عبداللہ بن نمیر نے متابعت کی ہے ملاحظہ ہو دار قطنی رقم (1592)عیسی بن ابراہیم الشعیرثقہ ہیں تحریر تقریب لتہذیب 35/3اور عبداللہ بن نمیر کتب ستہ کے راوی ثقہ صاحب حدیث من احل السنة ہیں (تقریب مع تحریر 279/2) علامہ البانی رحمة اللہ اس حدیث کے بارے رقمطراز ہیں ”فالحدیث عندی صحیح مرفوعا‘یہ حدیث میرے نزدیک مرفوعا صحیح ہے (ارواء الغلیل 89/3) اور یہی حدیث بقیہ بن الولید کی سند سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے :”جس نے نماز جمعہ یا دیگر نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز پالی۔بقیہ اگر چہ مدلس ہیں لیکن ان کی تصریح بالسماع مسلسل موجود ہے جیسا کہ المسند الجامع سے ظاہر ہے علامہ البانی نے اسے صحیح ابن ماجہ اور الاجوبة النافعہ ص 49میں صحیح قرار دیا ہے بلکہ لکھتے ہیں:خلاصہ کلام یہ ہے کہ جمعہ کے ذکر کے ساتھ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث مرفوع اور موقوف دونوں طرح صحیح ہے ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت نہیں
اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے اسی طرح شیخ عبدالقدوس حفظہ اللہ محقق مجمع البحرین نے بھی اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے 231/2۔اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے بلوغ المرام باب الجمعہ (416)میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے یہ روایت مرسلاوموصولا اور مرفوعاوموقوفادونوں طرح مروی ہے اور صحیح ہے جیسا کہ علامہ البانی نے فرمایا ہے ۔واللہ اعلم : باقی رہا کسی روایت کو تعدد طرق کی بنا پر حسن قرار دینا تو یاد رہے اگر اسانید میں راوی متھم بلکذب ہوں یا ضعف شدید ہوتو کثرت اسانید سے بھی ضعف کا تدارک اور انجبار نہیں ہوتا البتہ ضعف خفیف کثرة اسانیدت دور ہوجاتا ہے اور روایت حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت مین ضعف شدید نہیں ہے بلکہ اس کے رواة صحیح بعض حسن درجے کے ہیں ۔ہماری مذکورہ بالاتوضیح سے معلوم ہوا کہ جس شخص کی نماز جمعہ فوت ہوجائے تو چار رکعات ادا کرے گا۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ‘عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور کثیر ائمہ محدثین سے یہیبات منقول ہے بلکہ کرام رضی اللہ عنہ میں اس بات کا کوئی بھی مخالف نہیں ۔من ادعی فعلیہ البیان راقم نے آخر میں امام ابن ھبیرہ کی کتاب الافصہاح 125/1موسوعة الاجماع فی الفقہ الاسلامی 701/2رقم 2463سے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ جب کسی کی نماز جمعہ فوت ہو جائے تو وہ ظہر کی نماز ادا کرے
ظاہری صاحب اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ دعویٰ اجماع غلط ہے اور اس پر جو دلائل پیش کرتے ہیں ان کا محاکمہ ملا حظہ کریں ۔اشکال:امیر المومنین عمر بن خطاب فرماتے ہیں ۔”کہ خطبہ دور کعتوں کی جگہ پر ہے جس کا خطبہ فوت ہو جائے وہ چار رکعتیں ادا کرے۔“ازالہ: اولاً:یہ روایت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ایک سند میں عمروبن شعیب عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کررہے ہیں عمر و بن شعیب کا عمر رضی اللہ سے سماع ثابت نہیں ان کی عمر رضی اللہ عنہ سے روایت مرسل ہوتی ہے جیساکہ مراسیل رازی ص 123میں مرقوم ہے دوسری سند میں یحی بن ابی کثیر کہتے ہیں حدثت عن عمر بن الخطاب ”مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے ۔یحی بن ابی کثیر اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان کون سا راوی ہے جس نے یہ بیان کیا ہے اس کا ثبوت ظاہری صاحب کے ذمہ ہے کیونکہ یحی اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے لہٰذا اس روایت کا عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح ثبوت ظاہری صاحب کے ذمہ ہے ۔ثانیا:ظاہری صاحب نے اس منقطع اثر کو سمجھنے میں ظاہریت سے کام لیا ہے اگر کچھ غوروخوض سے کام لیتے تو اسے قطعا ہماری مخالفت میں پیش نہ کرتے کیونکہ یہ اثر ہماری تائید کرتا ہے بات دراصل یہ ہے کہ ائمہ میں اختلاف یہ ہے کہ جمعہ کیسے فوت ہوتا ہے خطبہ فوت ہوجانے سے یا ایک
رکعت فوت ہونے سے یا دوسری رکعت کا تشھد فوت ہونے سے اس میں اختلاف نہیں کہ جمعہ فوت ہو جائے تو دورکعت ادا کرنی ہیں یا چار۔مذکورہ اثر سے جمعہ کے فوت ہو جانے سے اکیلے جمعہ ادا کرنے پر دلیل لینا ظاہری صاحب کے عدم تفقہ کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ منقطع اثر بھی یہی بات بتاتا ہے کہ خطبہ فوت ہو نے سے جمعہ فوت ہو جاتا ہے اور جس کا جمعہ فوت ہو جائے وہ چار رکعات ادا کرے لہٰذا یہ ہماری موقف کی تائید کرتا ہے اور ظاہری صاحب کے موقف کی تردید جسے وہ بلاسوچے سمجھے ہماری رد میں پیش کررہے ہیں اسی طرح عطاء طاؤس ومجاہد کا قول بھی اس موقعہ پر پیش کرنا درست نہیں۔2۔اشکالدوسری دلیل یہ ذکرکرتے ہیں کہ ”عبداللہ بن مسعود کا یہ قول ”کہ جس نے تشھد پا لیا اس نے نماز پالی بھی دعویٰ اجماع کو باطل قرار دیتا ہے ۔ازالہ: اولاً :ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ اثر ابن ابی شیبہ (5359)میں جس سند سے مروی ہے وہ قابل حجت نہیں کیونکہ اس کی سند میں شریک بن عبداللہ القاضی مد لس ومختلط ہے اور اس کا استاذ عامر بن شفیق لین الحدیث ہے ۔ظاہری صاحب کو چاہیے اس کی تصریح بالسماع اور قبل ازاختلاط اس روایت کو بیان کرنا ثابت کریں ۔ثانیا :جس شخص کا جمعہ فوت ہو جائے وہ نماز ظہر ادا کرے اس مسئلہ کی تردید بھی اس میں موجود نہیں بلکہ یہ ضعیف قول اس بارے میں ہے کہ جمعہ پانے کیلئے حالت تشھد
میں ملنا کافی ہے نہ کہ جمعہ فوت ہو جائے تو چار رکعات ادا نہ کرے اور دوادا کرے ۔فیاللعجباشکال:اجماع کی تردید میں امام احمد کا فرمان جس نے اجماع کا دعویٰ کیا اس نے جھوٹ بولا۔ازالہ:امام احمد بن حنبل بالکلیہ اجماع کے منکر نہیں تھے وہ کئی ایک مسائل پر اجماع کا دعویٰ کرتے تھے جیسا کہ مسائل ابی داؤد اور فتادیٰ ابن تیمیہ میں قراة فی الصلوة کے متعلق ان کا دعویٰ اجماع موجود ہے اور کتب فقہ میں ا س کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں امام احمد کا اجماع کی نفی میں جو قول پیش کیا جاتا ہے یہ اپنے ظاہری معنی پر نہیں ہے جیسا کہ ظاہری صاحب نے سمجھ رکھا ہے بلکہ یہ علی طریق الورع ہے یا ایسے شخص کے حق میں ہے جس کو لوگوں کے احوال کی معرفت نہیں اور مذاحب کے بارے معلومات نہیں رکھتا اور بلا دلیل ہی دعویٰ اجماع کر دیتا ہے ایسا آدمی جھوٹا ہے جیسا کہ بشر مریسی وغیرہ امام احمد کا موقف تفیصلا معلوم کرنا ہوتو دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن التر کی کی کتاب ”اصول مذھب الامام احمد “ ملاحظہ کریں۔اشکال:ظاہری صاحب لکھتے ہیں ”معلوم ہوا کہ صحابہ کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جمعہ فوت ہونے کی صورت میں ظہر ادا کی جائے یا جمعہ نیز عمر بن خطاب اور تابعین جیسا کہ ذکر ہوا صرف خطبہ کے فوت ہونے پر چار رکعت پڑھنے کے قائل ہیں جس سے دعویٰ اجماع باطل ثابت ہوا“ازالہ:راقم کا ظاہری صاحب سے مطالبہ ہے کہ وہ کسی بھی