لاہور (ویب ڈیسک) پیپلز پارٹی کے رہنما جناب خورشید شاہ ریمانڈ میں 6روزہ توسیع پر کمرہ عدالت میں ہی رو پڑے‘ تو دوسری طرف رسی جلنے کے باوجود بَل ہیں کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہے۔خادمِ اعلیٰ کے صاحبزادے حمزہ شہباز احاطۂ عدالت میں پولیس آفیسر پر گرجتے برستے رہے۔
نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔سخت جملوں کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ مجھے نہ بتاؤ‘ میں نے کیا کرنا ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ انہیں ہرگز نہ بتایا جائے کہ انہیں کیا کرنا ہے‘ انہیں بھلا کون بتا سکتا ہے کہ اُنہوں نے کیا کرنا ہے‘سارے سبق تو وہ گھر سے پڑھ کر آئے ہیں۔ سارے کمالات اور مہارتیں اپنے بابا اور تایا ابو سے سیکھی ہیں‘ مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے؟ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے ایک ایسے انسٹیٹیوٹ میں آنکھ کھولی جہاں اقربا پروری سے لے کر کنبہ پروری تک‘ اختیارات کے ناجائز استعمال سے لے کر سرکاری وسائل کی بندر بانٹ تک‘ بوئے سلطانی سے لے کر طرزِ حکمرانی تک سب کچھ تھا اور وہ ‘نجانے کیا کیا اسی انسٹیٹیوٹ سے سیکھ کر میدانِ عمل میں آئے ہیں۔ انہیں اس ٹریننگ کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کاریگری سے لے کر چمتکاری تک‘ شعبدہ بازی سے بیان بازی تک‘ سارے گُر‘ سارے ہنر صبح شام‘ آتے جاتے سیکھتے رہے ہیں۔ اب تو وہ مہارت اور کاریگری کے اس مقام پر ہیں کہ پولیس افسر پر بھی گرج برس سکتے ہیں۔ کمرہ عدالت میں رونے والے خورشید شاہ کی بے بسی کو دیکھ کر مجھے بے اختیار ایک شعر یاد آگیا ؎۔۔وہ جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا ۔۔اب وہ روتا ہے چپ نہیں ہوتا ۔۔منی لانڈرنگ سے لے کر بوگس قرضوں‘ بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں سے لے کر عوام کو بنیادی ضرورتوں سے محروم کرنے تک‘
کس کام میں وہ مبینہ طورپر اپنے آقاؤں کے سہولت کار اور شریکِ جرم نہیں رہے؟ ان کی آنکھ سے اس وقت نہ کوئی آنسو ٹپکا‘ نہ کبھی ان کے ہاتھ کپکپائے اور نہ ہی قدم ڈگمگائے جب کراچی کی سڑکوں پر لاقانونیت اور داداگیری کا ننگا ناچ جاری تھا‘ لانچوں میں بھر بھر کر کرنسی نوٹ بیرون ملک منتقل کیے جانے کی خبریں سامنے آ رہی تھیں اور زرداری اور ان کے حواریوں کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ جائیدادیں‘ کمپنیاں اور فیکٹریاں بنانے کے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ حقدار کو اس کے حق سے محروم کرنے کے لیے دھونس ‘ دھاندلی سے لے کرظلم و جبر تک کوسا حربہ نہیں آزمایا گیا؟ خیر ابھی تو مکافاتِ عمل کا پہیہ چلنا شروع ہوا ہے‘آگے آگے دیکھئے کون‘ کب اور کہاں کہاں روتا ہے؟ کوئی سرِ عام رو پڑتا ہے تو کوئی پسِ زندان منہ چھپا کر ضرور روتا ہوگا۔ عوام کو رلانے والا خود کب تک نہ روئے گا؟ لٹنا اور مٹنا کیا صرف عوام ہی کا مقدر ہے؟ حکمران ماضی کے ہوں یا موجودہ‘ سبھی ادوار میں بدحالی ‘ دھتکار اور پھٹکار عوام ہی کے حصے میں آتی رہی ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں جو مینڈیٹ عوام نے تحریک انصاف کو دیا تھا اس کا حشر نشر کھل کر سامنے آچکا۔ تجاوزات سے لے کر احتساب اور گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ سبھی پر اقربا پروری اور بندہ پروری پورے زور و شور سے غالب ہے۔ دلفریب اور گمراہ کن اعداد و شمار کے ساتھ زبانی جمع خرچ جاری ہے۔
صرف وفاقی وزیر فواد چوہدری نے پورا سچ بول کر عوام پر واضح کر دیا ہے کہ حکومت نوکریاں دینے کا وعدہ وفا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ برسر اقتدار آنے کے بعد انصاف سرکار کے غیر مقبول اور ناموافق فیصلوں کے نتائج سامنے آچکے ہیں‘ جو تمنائیں وزیراعظم اپنے چیمپئنز سے لگائے بیٹھے تھے وہ ساری سُبکی اور جگ ہنسائی سے ہوتی ہوئی ناکامی پر ختم ہو چکی ہیں۔ خصوصاً پنجاب میں گورننس اور میرٹ تماشا اور طعنہ بنتے جارہے ہیں۔ عثمان بزدار کے حوالے سے بھی وزیر اعظم نہ صرف بضد ہیں بلکہ انہیں اپنی واحد ”چوائس‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ گویا وہ بطور وزیراعلیٰ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے‘ جبکہ ان کی ایک سالہ کارکردگی نہ صرف سوالیہ نشان ہے بلکہ حکمران پارٹی کی سرکردہ شخصیات بھی غیر مطمئن ہیں اور اپنی نجی محفلوں میں تنقید کرتی نظر آتی ہیں‘ جبکہ سرکاری طور پر عثمان بزدار صاحب کا دفاع کرناشاید ان کی مجبوری ہے۔ عمران خان عثمان بزدار کو اپنے لیے موافق اور موزوں ترین تصور کر بیٹھے ہیں‘ اس تناظر میں پنجاب بھر میں مشکل ترین اہداف اور گورننس کو ان کی ضد کا سامنا ہے اور وہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتے نظر نہیں آرہے۔ پنجاب کی ناقص کارکردگی اور بدانتظامی کے پیش نظر صوبائی قیادت کی تبدیلی کی بات زور پکڑ چکی ہے اور یہ معاملہ اب شدت اختیار کر رہا ہے۔ عمران خان پر اندرونی اور بیرونی دباؤ بتدریج بڑھ رہا ہے۔ اندرونی دباؤ پرتو خیر وہ خود ہی قابو پا لیتے ہیں‘ لیکن بیرونی دباؤ ان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں صوبائی تبدیلی کا دباؤ باقاعدہ مطالبے کی صورت اختیار کرتا نظر آرہا ہے اور یہ مطالبہ تبدیلی آنے تک جاری رہ سکتا ہے۔ اگر عمران خان اس مطالبے کو رد کریں گے تو محاذ آرائی اور بحرانی کیفیت کا اندیشہ ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ طویل جدوجہد کامیاب انتخابی حکمت عملی اور” کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ جوڑ کر تحریک انصاف کو کیا اسی لیے اقتدار ملا تھا کہ قوتِ فیصلہ سے عاری شخص کو وزیراعلیٰ بنا دیا جائے؟ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پنجاب میں حکومت سازی کے حوالے سے صوبہ بھر کے عوام کو انتظار اور تجسس میں مبتلا رکھاگیا‘ عمران خان کے قریب ترین اور معتمد ساتھی بھی آخری وقت تک وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے سے ان کے فیصلے سے لاعلم تھے۔ بالآخر طویل انتظار اور تجسس کا خاتمہ ہوا اور قرعہ عثمان بزدار کے نام نکل آیا۔ وزیر اعظم کے اس فیصلے نے کتنوں کے ارمانوں کا گلا گھونٹااور کتنوں کی طویل ریاضتوں اور قربانیوں کو خاک میں ملا ڈالا‘یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ نامزدگی کے وقت عثمان بزدار کو ایسا ماڈل بنا کر پیش کیا گیا تھا کہ ان کے بجائے کسی اور کو وزیراعلیٰ نامزد کیا جاتا تو شاید وہ ان کے معیار اور ویژن پر پورا نہ اُترتا اور صوبہ بھر میں قبضہ مافیا کا راج ہوتا‘بینکوں سے قرضے لے لے کر بینکوں کو خالی کر دیا جاتا‘ اس کے رشتہ دار موجیں اُڑا رہے ہوتے‘ اس کی اولادیں ارب پتی بن جاتیں اور وہ خود نجانے کتنی شوگر ملوں کا مالک بن جاتا وغیرہ وغیرہ۔شوگر ملوں اور بینکوں سے قرضوں کے حصول کی تو خبر تو تاحال نہیں آئی؛ البتہ رشتے داریاں اور تعلق داریاں خوب نبھائی جا رہی ہیں۔ اُن کی خاطرداریوں سے لے کر دل داریوں تک‘ تعیناتیوں سے لے کر سیاسی تقرریوں تک سارے کام جاری ہیں۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتاہے کہ کوئی انتظامی کمیٹی ‘ بورڈ آف گورنر یا بورڈ آف مینجمنٹ ایسا نہیں ہونا چاہیے جس میں سارے ارکان غیر بزدار ہوں۔ اگر کوئی ایسی فہرست آ بھی جائے تو اس میں دو چار بزدار برائے برکت ڈال دئیے جاتے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں‘ اور دفاتر تو پہلے ہی ان کی خدمات اور خاطر داری پر مامور ہیں۔ افسوس اور تشویش کا مقام ہے کہ نہ وزیراعظم کی توقعات پوری ہو سکیں اور نہ ہی عوام کی تقدیر بدلی۔ اُن کی امیدوں کا مرکز‘ اُن کا اپنا وسیم اکرم… اُن کی آنکھ کا تارا… اُن کا راج دُلارانتائج فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ دھرنوں اور انتخابی تحریکوںمیں جو خواب عوام کو تواتر سے دکھائے گئے تھے وہ محض خواب ہی ٹھہرے‘ اُن کا تعبیر اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ بعض اوقات دوائی کا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ترکیب استعمال معلوم ہونا بھی ضروری ہوتاہے۔ انصاف سرکار میں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے لگانے والی دوائی کھائی جارہی ہے اور کھانے والی لگائے چلے جارہے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا خاک افاقہ ہوگا۔جناب وزیراعظم نے تو کھیل کے میدان میں کبھی کسی کو دوسری غلطی کا موقع نہیں دیا تھا ‘یہ تو امور سلطنت ہیں۔ عوام کی جان و مال کے تحفظ سے لے کر ان کی کفالت اور خوشحالی سے مشروط سارے معاملات سرکار کی ذمہ داری ہیں۔ یہاں ”بلنڈرز اور بیڈ گورننس‘‘ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ان کے لیے کس طرح قابلِ برداشت ہے۔ بڑے بھائیوں جیسے اُستاد ماجد خان کو آف لوڈ کرنے میں دیر نہیں لگائی تو پھر دوستیوں اور من مانیوں کا بوجھ گورننس اور میرٹ پر کیوں ڈال رکھا ہے؟