اتفاق فائونڈری کا ہوم میڈ مردِ آہن موم کی طرح پگھل چکا اور ’’طبی بنیادوں‘‘ پر ووٹ کو عزت دیتے ہوئے بیرونِ ملک علاج کے لئے ضمانت پر رہائی چاہتا ہے۔ ایک بھٹو تھا جو تنگ و تاریک کال کوٹھڑی میں ایئر کنڈیشنر اور ٹی وی کے بغیر سربکف اور سربلند رہا۔ بھٹو کے ڈینٹسٹ تھے ڈاکٹر نیازی جو بھٹو کو شدید جسمانی اذیت میں مبتلا دیکھ کر مسلسل بھٹو صاحب سے کہتے رہے کہ آپ کے دانتوں کی بیماری اور تکلیف میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور علاج ہسپتال کے علاوہ ممکن نہیں سو آپ ہسپتال شفٹ ہونے کے لئے اپیل کریں۔ بھٹو نے ہر بار ڈاکٹر کا یہ مشورہ سختی سے مسترد کر دیا۔فرق صاف ظاہر ہے۔ اک لیڈر تھا، اک سوداگر ہے جو جدہ کا ایکشن ری پلے چاہتا ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ کھیلنے کے لئے کبھی انگلستان، کبھی جدہ اور کبھی پیارا پاکستان ہے۔ جو بٹیرا تین بار پائوں کے نیچے آیا، بشرطِ صحت اور زندگی چوتھی بار کیوں نہیں آ سکتا؟برادرِ خورد برد سمیت معقول رقمیں واپس کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اس معصومانہ و مکارانہ شرط کے ساتھ کہ یہ قصہ کن سن میں ختم ہو جائے۔ نہ رقموں کی واپسی کا اقرار کریں گے نہ عوام کے سامنے پلی بارگین کا اعتراف کریں گے تاکہ اگلی نسل ’’صاف ستھری‘‘ رہ کر انتقامی جذبہ کے ساتھ ریکوری کی رقمیں مع سود مرکب اس ملک سے واپس وصول سکے کیونکہ اگر مالِ مسروقہ کی ریکوری سرعام پیش کی تو عوام کے سامنے پوری طرح ایکسپوز ہو جائیں گے اور شریفانہ سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے گی۔ یہاں تک تو کامن سینس ساتھ دیتی ہے، بات کی سمجھ آتی ہے کہ جدہ فیم جگاڑیے موجودہ حالات میں یہ کچھ نہ کریں گے تو اور کیا کریں گے لیکن سنسنی خیز ترین خبر یہ ہے کہ دو اہم اداروں نے یہ رپورٹ فائنل کر لی ہے کہ ڈالرز والا کھلواڑ کس نے بلکہ کس کس نے کیا اور ان کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں۔خبر کی تفصیل میں کیا جانا، چند سرخیوں پر غور فرما لیں تو ساری واردات بہ آسانی سمجھ میں آ جائے گی۔’’ڈالر کا مصنوعی بحران پیدا کرنے میں 51 ٹاپ مافیاز، 72منی ایکس چینجرز، 18 بڑے بک میکر اور 9 لینڈ مافیاز ملوث ہیں‘‘’’پروپیگنڈا کرنے والے 380 سوشل میڈیا اکائونٹس کا بھی سراغ لگا لیا گیا ہے‘‘’’ان تمام سوشل میڈیا اکائونٹس کا تعلق تین سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے‘‘’’روپے کی قدر گرانے میں ملوث بڑے کاروباری گروپوں کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور ان میں سابق بینکرز بھی شامل ہیں‘‘’’بک میکرز کے بھارتی بک میکرز سے بھی رابطے ہیں‘‘’’سرمایہ کاری میں بھی بھارتی مافیا شامل نظر آتا ہے‘‘قارئین!میرے لئے یہ کوئی انہونی نہیں۔ حیرت صرف اس بات پر ہوئی ہے کہ ’’دو پارٹیوں‘‘ نے ’’تیسری پارٹی‘‘ میں بھی اپنے ایجنٹس گھسا کر اس میں نقب لگا لی ہے تاکہ واردات کو فول پروف بنایا جا سکے۔ باقی خبر مجھ جیسے آدمی کے لئے خاصی نارمل ہے کیونکہ جب کوئی خاندان یا کوئی چند خاندان تسلسل کے ساتھ اقتدار میں رہیں گے تو سسٹم میں ان کی جڑیں شیطان کی آنت کی طرح پھیلتی اور گہری سے گہری ہوتی چلی جائیں گی، جو ہمارے ہاں ہوا ہے۔مہذب، ترقی یافتہ اور مضبوط دنیا پاگل نہیں جو اپنے بہترین لوگوں کو بھی اقتدار سے مسلسل چمٹے رہنے کی اجازت نہیں دیتی اور اک مخصوص و محدود مدت کے بعد بڑے سے بڑے پھنے خان کو بھی سسٹم سے نکال باہر پھینکتی ہے کہ بصورت دیگر افراد یا خاندان سسٹم سے بھی زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں اور ریاست عملاً ان کے پاس یرغمال اور گروی پڑ جاتی ہے۔صرف بیورو کریسی ہی نہیں، ہر شعبۂ زندگی میں ان کے طفیلیے، پروردہ اور بینی فشریز نہ صرف طاقتور ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مافیاز تو مافیاز، ٹریڈ یونینز اور مختلف قسم کی ایسوسی ایشنز بھی ان کے اشاروں پر ناچتی ہیں اور یہ جب چاہیں سسٹم کو ڈسٹرب یا جیم کر سکتے ہیں تو ڈالر کو تگنی کا ناچ نچانا، اوپر نیچے کرنا کون سا مشکل کام ہے؟ سٹاک ایکسچینج کے ساتھ چھیڑ خانیاں یا مہنگائی کو مصنوعی بڑھاوا دینا بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں۔مجھے علم نہیں کہ پی ٹی آئی میں کتنے لوگوں کو اس بات کا شعور ہے کہ تواتر کے ساتھ اقتدار میں رہنے والے کیا کیا کچھ کر سکتے ہیں اور کیسی کیسی حدود سے تجاوز کرنا ان کے لئے کتنا آسان ہے۔ بظاہر تو پی ٹی آئی کے اناڑیوں کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے اور ان کی ہر تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ بیورو کریسی تعاون نہیں کر رہی۔ کوئی ان کودنوں کو سمجھائے کہ معاملہ بیورو کریسی سے شروع ہو کر بیورو کریسی پر ہی نہیں ٹوٹتا… اس تہہ در تہہ انتہائی پیچیدہ کھیل میں بہت سے پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں جو اپنے اور اپنے سیاسی آقائوں کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔یہ جو خبر میں مافیاز، منی ایکس چینجرز، بک میکروں، بڑے کاروباری اداروں، قبضہ گروپوں وغیرہ کا ذکر ہے تو یہ ’’سیدھے سادے‘‘ بیورو کریٹس سے کئی گنا زیادہ بڑے سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں۔ بیورو کریٹ کتنا ہی بڑا فن کار کیوں نہ ہو، اس نے بالآخر ریٹائر ہو جانا ہوتا ہے جبکہ مافیاز اور دیگر وارداتیوں نے نسل در نسل چلنا ہوتا ہے۔کل کلاں ٹیکنالوجی کچھ کر دے تو کر دے ورنہ دنیا میں پیسہ دراصل ہوتا ہی ’’پولیٹکل پیسہ‘‘ ہے۔ اس عہد میں دولت کی ایک تعریف کے مطابق یہ تو ہے ہی “کلاسیفائیڈ انفارمیشن تک رسائی” اور یہ ’’کلاسیفائیڈ انفارمیشن‘‘ حکمرانوں کے پاس ہوتی ہے کہ آئندہ فلاں پالیسی کیا ہوگی؟ موٹر وے یا رنگ روڈ کہاں سے گزرنی ہے؟ ایئرپورٹ یا انڈسٹریل سٹیٹ کہاں بنے گی؟ آئندہ بجٹ میں کہاں کون سے گل کھلیں گے، کون سے مرجھا جائیں گے؟ کس شے پر ڈیوٹی کم یا زیادہ ہوگی؟ پراپرٹی پر کیا گزرے گی؟ علیٰ ہذاالقیاس۔ میں نے بہت ہی سادہ اور عام فہم ترین مثالیں دی ہیں تاکہ عام قاری کے لئے آسانی ہو ورنہ معاملہ تو بہت ہی گمبھیر ہے۔ بیشمار مافیاز کی تو زندگی ہی کلاسیفائیڈ انفارمیشن تک رسائی کے بطن میں ہوتی ہے جس کے لئے حکمرانوں کی قربت بنیادی شرط ہے اور یہ قربت مفت نہیں ملتی اور اگر خیر سے حکمران ’’کاروباری‘‘ بھی ہو تو کریلا نیم چڑھ جاتا ہے، سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ سو اگر یہ لوگ ’’کاروباری حکمران خاندان‘‘ یا خاندانوں کے لئے کوئی مصنوعی بحران پیدا کرتے ہیں تو یہ معمولی بات ہے۔ غیر معمولی بات یہ ہوگی کہ غیر کاروباری حکومت نے کاروباری اپوزیشن یعنی سابق کاروباری حکمرانوں کے حربوں ہتھکنڈوں کو سمجھ بھی لیا، ان سے نمٹ بھی لیا۔ یہی اصل کام ہے جو ہو گیا تو ملکی معیشت سائونڈ بیریئرز بھی توڑ سکتی ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو سکا تو….