بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ چاند چڑھتا ہے تو دنیا دیکھتی ہے۔ پرانے وقتوں کے بزرگ اشارے کنایوں میں بات کرنے کے عادی ہوتے تھے اور بعض اوقات اس عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اتنی دور کی کوڑی لاتے تھے کہ کوڑی، کوڑی کی ہو کے رہ جاتی تھی۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، ہم بھی آہستہ آہستہ بڑھاپے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے بزرگوں کی دیکھا دیکھی کنایوں میں بات کرنے کا مرض ہم میں بھی سر سے پیر تک جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں کم عمر بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات ایک کے بعد ایک سامنے آ رہے ہیں۔
ظاہر ہے ان سب واقعات میں مرد ہی ملوث ہوتے ہیں لیکن جب ان پہ بات کی جائے تو گالیاں عورتوں کو دی جاتی ہیں۔ بہت غور کیا لیکن اس رویے کی وجہ سمجھ نہ آئی۔
عورت سے نفرت تو سمجھ آ گئی لیکن بچے، بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے پیچھے کون سا جذبہ کارفرما ہے؟
اشارے کنایوں میں بات کریں تو بھی اس سے زیادہ لگی لپٹی نہیں رکھی جا سکتی کہ یہ ایک مجرمانہ اور مریضانہ جنسی رویہ ہے اور ایسے مریضوں اور مجرموں کو شناخت کرنا اور ان سے خود کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔
بیمار جنسی رویہ، جنسی تعلق میں تشدد اور پھر قتل، یہ واقعات ہمارے معاشرے میں اتنے تسلسل سے دہرائے جا رہے ہیں کہ اب تو ان پہ بات کرتے ہوئے بھی لگتا ہے کہ کیا بات کرنے کا بھی کچھ فائدہ ہے یا نہیں؟
فرشتہ مہمند کے ساتھ جو زیادتی ہوئی اس نے دل ہلا کر رکھ دیے۔ اس لیے نہیں کہ اس بچی کو جنسی تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا، اس لیے بھی کہ اس کے حق میں بولنے سے خود کو بری الذمہ کرنے کا جواز بہت بودا تھا۔
جنسی رویوں میں یہ کجی کیونکر پیدا ہوتی ہے اور اس کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ان موضوعات پہ باقاعدہ کام ہونا چاہیے۔ تحقیق کے ذریعے، اعداد و شمار کے ذریعے یہ پتا لگانا چاہیے کہ یہ رویے کیوں بگڑتے جا رہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں سامنے آنے والے واقعات سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ’پیڈو فیلیا‘ نہ صرف موجود ہے بلکہ اس رجحان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
مسجد کے مولویوں سے لے کر محلے کے بڑے بوڑھے تک بچوں پہ تاک لگا کر بیٹھے ہیں۔
’می ٹو‘ کی تحریک کا مقصد بھی بہت حد تک یہ ہی تھا کہ معاشرے میں پائے جانے والے مریضانہ جنسی رویے کی نشاندہی ہو۔
’ریپ‘ جیسے جرم کی طرف بڑھنے والا پہلا قدم جنسی ہراسانی ہوتا ہے۔ اپنے ماتحت اور مجبور سے جنسی التفات جتانا بالکل ویسا ہی ہے جیسا کسی کم عمر بچے یا بچی پہ گندی نظر رکھنا۔
دونوں صورتوں میں شکار کی سماجی حیثیت شکاری کی نسبت کمتر ہوتی ہے اور وہ خوف یا سماجی دباؤ کے باعث مجرم سے بچ نہیں سکتا۔ ایسی صورتحال اس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب کوئی اپنا کام کسی دفتر میں لے کر جاتا ہے۔
بہت معذرت کے ساتھ پاکستانی دفاتر میں، ساتھ کام کرنے والی خواتین، کام کے لیے آنے والی خواتین یا کسی معاملے میں پھنسے ہوئے کسی شخص کی عزیز خواتین کی طرف جو رویہ رکھا جاتا ہے، اس سے سب بخوبی آگاہ ہیں۔
’بی بی‘ کا لفظ نہایت تحقیر سے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ خواتین کی کس ’کیٹیگری‘ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
وہ خواتین جو اتنی خوش نصیب ہوتی ہیں کہ انھیں ہراساں نہیں کیا جاتا، ’بی بی‘ کہلاتی ہیں لیکن یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ان بیبیوں کے اڑے ہوئے کام اور دبی ہوئی فائلیں کبھی صاحب کی میز پہ نہیں آتیں۔
صاحب کی میز پہ آتے ہیں وہ مسائل اور وہ فائلیں جو دوسری ’کیٹیگری‘ کی خواتین کی ہوتی ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ کام ان کے بھی نہیں ہوتے۔
جی ہاں، اڑے ہوئے کام ان خواتین کے بھی نہیں ہوتے، ہوتا صرف یہ ہے کہ انھیں لچھے دار گفتگو کے ذریعے ہراساں کر کے اسی حس کی تسکین کی جاتی ہے جس حس کی تسکین، پیڈو فائل بچوں کے ساتھ تعلق رکھ کے کرتا ہے اور سادیت پسند اپنے شکار کو اذیتیں دے کر اور قتل کر کے حاصل کرتا ہے۔
وہ لوگ جو ان مجرموں کا شکار بننے والی خواتین کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، وہی ہیں جو ریپ کی وجہ بے پردہ عورت کو سمجھتے ہیں۔
خیر تھوڑے کہے کو بہت جانیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی بہت ترقی کر گئی ہے۔ پہلے سنا کرتے تھے کہ روز حشر اپنا سب کیا دھرا، سامنے دہرایا جائے گا اور اپنے ہی ہاتھ پاؤں اپنے خلاف گواہی دیں گے۔
اب تو لگتا ہے روز حشر سامنے کھڑا ہے۔ مقام عبرت ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے سمجھنے کی بات ہے۔ اپنے رویے درست کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ بیماری کا کوئی بھی درجہ اچھا نہیں ہوتا اور کسی بھی نفسیاتی مرض سے اس وقت تک چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا جب تک مریض یہ بات نہ سمجھ جائے کہ میں مریض ہوں۔
تو صاحبو! اپنا مرض پہچانیے۔ ٹھرک جھاڑنا کسی بھی صورت صحت مند رویہ نہیں ہے۔ پہلے خود کو درست کیجیے اور پھر معاشرے میں پھیلے گندے رویوں کی درستی کے لئے اقدام کیجیے۔
چاند چڑھانے سے پہلے سوچیے کیونکہ جب چاند چڑھ جاتا ہے تو دنیا دیکھتی ہے!