لاہو ر;مجھے اندازہ نہیں کہ پنجاب سے مرکز تک مہمان اداکاریعنی یہ نگران برادران جان بوجھ کر ظلم کررہے ہیں یاانجانے میں عوام کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ میسنوں کی طرح چپ کیوں ہیں اور عوام کو کھل کر اعدادو شمار کے ساتھ
نامور کالم نگار حسن نثار اپنے نئے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔یہ کیوں نہیں بتارہے کہ شریف برادران پاکستان کے ساتھ کیسا کیسا ہاتھ کر گئے ہیں۔ پنجاب بری طرح مقروض اور اس کا خزانہ بھاں بھاں کررہا ہے۔ بوگس منصوبوں نے بھرکس نکال رکھاہے۔اورنج ٹرین مردہ ڈائنوسار کی طرح ہر چوک چوراہے پر حماقتوں کا ماتم کر رہی ہے اور میٹرو پرعوام کی جیبیں کاٹ کر اتنی سبسڈی دی جارہی ہے کہ الامان الحفیظ۔ دوسری طرف مرکز میں سمدھی شریف مفرور فنکار اسحاق ڈار ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کے کچھ مہرے توڑ گیا، کچھ چرالے گیا۔ روپیہ کو ٹکے ٹوکری اور اس بری طرح ذلیل کرنے کا پورا کریڈٹ اس اقتصادی بنارسی ٹھگ کو جاتا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں تباہ کن تاریخ ساز اور تاریخ شکن اضافہ مجھے تو سمدھی شریف کاسوچا سمجھا منصوبہ لگتا ہے۔ ڈالر کا بینک ریٹ 128سے اوپر، اوپن مارکیٹ میں 130کا مطالبہ زوروں پر، ایک ہی جھٹکے میںقرضے 800ارب بڑھ گئے تو کیا میں یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ ہندوستان کو اور کیا چاہئے کہ سوویت یونین کو بھی اسلحہ اور باہر سے نہیں، اقتصادی طورپر اندرسے ہی موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا تو یہاں اس بے رحمی اوربے دردی سے کس نے ہمیں یہ دن دکھایا۔
گزشتہ الیکشن کیمپین کے دوران میں چیخ چیخ کرکہتارہاکہ اگر ن لیگ کی حکومت آگئی تو عوام کی چیخیں مریخ پر سنائی دیں گی لیکن سچی بات ہے مجھے بھی اتنی تباہی کا اندازہ نہیں تھا۔ اب تو چیخیں مریخ سے بھی آگے تک سنائی دیں گی۔ مہنگائی کا اک ایسا آتش فشاںپھٹے گا کہ ’’ووٹ کی عزت‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کے جھوٹے نشان دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ بدخبری یہ بھی ہے کہ ڈار کی لگائی ہوئی آگ ابھی مزید پھیلے گی۔ ڈالر مزید چڑھے بڑھے گا تو ان غیرذمہ دار، ۜٹھنڈے ٹھار،سرف میں دھلے نگرانوں کو پوری تفصیل کے ساتھ قوم کو اعتماد میں لیناہوگا کہ مودی کے یار کے سمدھی شریف ڈارصاحب کیا واردات ڈال گئے ہیں۔ میرا عاجزانہ سا ذاتی خیال ہے کہ اگر ہندوستان اپنے کسی ’’ذاتی‘‘ ماہر اقتصادیات کو باقاعدہ ’’ٹاسک‘‘ دے کر پاکستان کا وزیرخزانہ بنوا دیتا توشاید وہ بھی پاکستان کی اقتصادیات کے ساتھ وہ کھلواڑ نہ کرسکتا جو اسحاق ڈار کر گیا۔چند روز پہلے ڈائریکٹر جنرل ISPR میجر جنرل آصف غفور نے انتہائی نرم لہجے اورڈھکے چھپےالفاظ میں کچھ ایسے ملکوںکی طرف موہوم سا اشارہ کیا جنہیں ہمارے الیکشنز اور ان کےنتائج میں بڑی دلچسپی ہے تو حیرت ہے ہمارے نگران حکمرانوں سے لے کر مہربان ادارے تک ذراکھل کرکیوں
نہیں بتادیتےکہ پردے کے پیچھے کیاہے؟ ہمارے دشمنوں نے کہاں کہاں نقب زنی کی ہے۔اور نہیں تو کم از کم عمران خان کوتو چاہئے کہ سادہ سلیس عوامی زبان میں عوام کوسمجھائے کہ شریف برادران دراصل واردات کیاکرگئےہیں۔ادھر ان کی ڈھٹائی دیکھو، ملکی معیشت کو اندھے کنویں میں دھکیلنے کے بعد بھی کہتے ہیں ’’نوازشریف نہیں انقلاب آ رہا ہے‘‘ تاریخ کاپہلا انقلاب ہے جو کھدیں پاوے کھاتا، کروڑوں روپے کی گھڑی اور مگرمچھ کی کھال کے جوتے پہن کر آیا ہے اورپہلا انقلاب ہے جس کی توند نکلی ہوئی ہےورنہ انقلاب کا پیٹ تو اس کی پشت کے ساتھ پیوستہ ہوتاہے۔ کوئی ہے جواس گوالمنڈی کے چی گویرے کو مائو کے انقلاب اور لانگ مارچ بارے کچھ بتائے کہ جتنے مہینے، ہفتے، دن مائو اور اس کے انقلابیوںنےاذیت ناک موت کےسفر میں گزارے، تمہیں اتنے منٹ ویسی کنڈیشنز میں گزارنے پڑجائیں تو تم موم کے باوے کی طرح پگھل کر بہہ جائو۔ واہ کیسا سیون سٹار انقلاب ہے جو جیل میں پہلے دن ہی باتھ روم کی خستگی کارونا لے کر بیٹھ گیا۔ لیکن آج یہ خودساختہ انقلابی نہیں یہ نگران میرا موضوع ہیں اور میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ دانشور، پڑھے لکھے، دیانتدار نگران زبان کیوںنہیں کھولتے؟ عوام کو کھل کر کیوں نہیں بتاتے کہ جاتی امرا برادران جاتے جاتے آنے والوں کےلئے کہاں کہاں، کیسا کیسا جہنم دہکاگئے ہیں۔آنے والی حکومت کے ماتم کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ وارداتیئے ساراملبہ اس پر ڈالیں گے اس لئے کہیں بہتر ہوگا کہ نگران زبان کھولیں….. حقائق ،خصوصاً اقتصادی حقائق قوم کے سامنے رکھیں تاکہ ان کے ’’انتخابی علم‘‘ میں خاطرخواہ اضافہ ہو۔