بچپن میں سنتے تھے ہاتھ سے محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔ بچپن کی کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ آپ چاہ کے بھی ان کو بھلا نہیں سکتے۔ تو یہ بھی میرے نزدیک ایسی ہی باتوں میں سے ایک بات تھی۔ میں نے ہمیشہ محنت سے کام کرنے کو ترجیح دی۔ کیونکہ مجھے کام کرنا پسند ہے اور زندگی میں کسی مقام پہ پہنچنے کی جستجو۔ 2004 میں صنعت زار میں بیوٹیشن کورس میں ایڈمیشن اسی جستجو کی ایک کڑی تھی۔ لیکن کام سیکھنے کے باوجود کچھ حالات کی وجہ سے میں اس کام کو کرنے سے قاصر رہی۔ خاندان کی سطح پہ مفت ہی سہی تھوڑا بہت کام کیا مگر پھر وہ بھی ختم ہو گیا۔ آخر کار 2014 میں اپنا سیلون بنانے سے پہلے دوبارہ چھ ماہ کا ڈپلومہ لیا اور سیلون بنا کے اس پہ کام شروع کیا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میرا سیلون پہ پہلا دن تھا تو میرے ہاتھ باقاعدہ کانپ رہے تھے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ باقی سب کام مجھے اچھے سے آتے تھے۔ مگر آئی برو بنانے کی میری پریکٹس نہیں تھی۔ اور پہلی آئی برو بناتے وقت مجھے آدھے گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا تھا۔ آج میرا پارلر آئی برو سپیشلسٹ سے مشہور ہے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ عورت جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو اسے دل سے کرتی ہے۔ اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہے۔ محنت کرتی ہے تو اس لئے کہ گھر کو بہتر طریقے سے چلا سکے۔ اپنے بچوں کی بہتر پرورش اور نشونما کے لئے وہ دن رات نہیں دیکھتی، صرف یہ دیکھتی ہے کہ اس کے بچے کیسے اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔
اب ہمارے معاشرے کا یہ المیہ کہہ لیں یا سوچ کہہ لیں، اول تو گھر سے نکلنے والی عورت کا جینا ہی محال کر دیتے ہیں۔ اسے دن میں کئی بار بہت سی جگہوں پہ بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آفسز میں کام کرنے والی خواتین کو شاید پھر بھی کسی جگہ پہ معافی مل جاتی ہو۔ مگر جہاں کسی کو یہ پتہ چلے کہ خاتون کسی پارلر پہ کام کرتی ہے، وہیں اس کا کریکٹر مشکوک سمجھ لیا جاتا ہے۔ دور کیا جانا خود میری فیملی میں مجھے کہا جاتا ہے کہ کسی کو یہ مت بتانا کہ تمہارا پارلر ہے اور تم پارلر کا کام کرتی ہو۔
المیے پہ المیہ یہ ہے کہ چونکہ ہم رینٹ پہ رہتے ہیں تو جب کبھی گھر شفٹ کرنا ہوتا ہے، نئے گھر دیکھنے جاتے وقت مجھے کہا جاتا ہے کہ پارلر کا مت بتانا۔
اس کی وجہ وہ سوچ ہے جو لوگوں کے دماغوں سے چپکی ہوئی ہے کہ پارلر پہ کام کرنے والی عورتیں دو نمبر (معذرت کہ لفظ کپڑے نہیں پہن سکتے ) ہوتی ہیں۔ آپ کے گھروں کی خواتین پارلرز کی خدمات لئے بغیر شادی تو دور کسی مرگ پہ بھی نہیں جا سکتیں۔ عیدوں پہ پالرز پہ رش دیکھ لیا کریں۔ جن لڑکیوں نے شاید کبھی اپنی ماؤں کے پاؤں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہوتا، وہ آپ کی عورتوں کے گندے پاؤں گود میں رکھ کے صاف کرتی ہیں۔
گھنٹوں ایک ٹانگ پہ کھڑے ہو کے آپ کی بیٹیوں کو پیا گھر سدھارنے کے لئے تیار کرتی ہیں۔ محنت کر کے روٹی کمانا اور اس کے بعد خود پہ بد چلنی کے ٹھپے لگوانا بڑے دل گردے کا کام ہے۔
میں یہ سمجھتی ہوں کہ اگر آپ پارلر جا رہے ہیں تو آپ وہاں اسی طرح ان کی سروسز لینے جاتے ہیں جیسے آپ ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جاتے ہیں یا وکیل کے پاس کیس لڑنے کے لئے۔ آپ کبھی ڈاکٹر کو دو نمبر نہیں کہتے، کبھی ڈاکٹر کو رینٹ پہ گھر لینے کے لئے اپنے پیشے کو چھپانے کی نوبت نہیں پڑتی۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی سروسز لینے جائیں تو بیوٹیشن کی عزت بھی ویسے ہی کریں جیسے کسی بھی نامور پیشے والوں کی کرتے ہیں۔ اپنی پرسنل لائف میں کوئی کیسا ہے اس کے لئے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
کیونکہ آپ اپنی ذاتی زندگی میں کیسے ہیں یہ جاننے کی ایک پارلر والی کو کوئی حسرت نہیں ہوتی۔ اس کے لئے تمام کلائنٹ ایک جیسے ہوتے ہیں چاہے کوئی ایلیٹ کلاس کا بندہ ہو یا غریب۔ اپنی سوچ کو وسیع کریں معاشرے کو بہتر کریں۔ اور پارلر والیوں کو بھی انسان سمجھ کے انہیں نارمل لوگوں کی طرح جینے کا حق دیں۔ ان کے ہنر کی قدر کریں۔
تحریر: نوشی بٹ، بشکریہ ہم سب