وطن عزیز کے ہر شعبے میں پھیلے ہوئے بگاڑ، ابتری، بے عملی اور بے حسی سے اس مملکت خداداد کا ہر باشعور شہری نہ صرف خوب واقف ہے بلکہ اس کے عملی نتائج اپنی جان ناتواں پر مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی اور خوف کی شکل میں بھگت بھی رہا ہے۔ یہ ملک 1960 کی دہائی میں دنیا کے تیزی سے ترقی کرتے ممالک میں شامل تھا اور اس کی ترقی کرنے کی رفتار دیکھتے ہوئے بیسویں صدی کے اختتام تک اس کے ترقی یافتہ مملک میں شامل ہوجانے کی باتیں اور پیش گوئیاں ہو رہی تھیں۔ آج کے ایشین ٹائیگر کہلانے والے ممالک اُس زمانے میں پاکستان سے رہنمائی لے رہے تھے۔ آج کی ہماری تباہ حال قومی ہوائی کمپنی پی آئی اے، کئی ممالک کو ایئرلائنز کے قیام میں مدد دے رہی تھی جو دور حاضر کی کامیاب ایئر لائنز میں شامل ہیں، علیٰ ہذٰالقیاس۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار تمام شعبہ ہائے زندگی میں قابل رشک تھی۔
پھر ہمیں زوال آنا شروع ہوگیا، ہم دو لخت ہوگئے۔ ہر شعبہ زندگی میں ہم دنیا کے دیگر ممالک سے پیچھے ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ اس مقام پر آگئے ہیں کہ اب دنیا کے ممالک کےلیے ہم ایک تھرڈ کلاس ملک ہیں جس پر کئی طرح کے الزامات ہیں۔ ہمارے گرین پاسپورٹ کی وقعت بہت محدود ہوگئی ہے۔ مگر اس دور زوال میں بھی ہم نے کچھ ایسے محیرالعقول کارنامے بھی انجام دیئے ہیں جنہوں نے دنیا بھر کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔
مثلاً، نامساعد حالات اور ہزاروں رکاوٹوں کے باوصف نیوکلیئر کلب میں بڑی شان سے شامل ہونا، مختلف کھیلوں میں نمبر ون رہنا خصوصاً اسکواش اور ہاکی میں۔ دنیا کے چالیس سے زائد ممالک کی افواج دہشت گردی کے خلاف برسوں سے جنگ لڑ رہی ہیں لیکن ہنوز کامیابی سے بہت دور ہیں، وہی جنگ ہم نے اپنے ملک میں بڑی شان اور حوصلے سے جیت کر دکھائی ہے وغیرہ۔ یہ کارنامے اس بات کے غماز ہیں کہ: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف جو اس بلاگ کی اصل محرک بھی ہے۔ یہ بگاڑ، یہ زوال کیا یونہی رہے گا؟ کیا ہم یونہی نسل در نسل اس پستی کا شکار ہوتے رہیں گے؟ یا کوئی علاج، کوئی راستہ ہے اس ضیق، اس تنگی و پریشانی سے نکلنے کا؟ تو بھائی! اپنا تو ایک عقیدہ ہے کہ فاعل حقیقی اللہ تعالی ہیں، سارے فیصلے اوپر ہوتے ہیں اور زمین پر مختلف مظاہر اور اسباب کے پردے میں ہمیں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تو بس اگر اس سے مانگ لیا جائے اور اسے منالیا جائے تو یہ بظاہر ناممکن نظر آنے والا کام ممکن ہوسکتا ہے۔ دیگر تجربات کے ساتھ ساتھ، جو اس ملک میں اصلاح کےلیے بڑے لوگوں کی جانب سے کیے جارہے ہیں، ہم سب عام لوگ بھی برابر کے قصور وار ہیں جو پاکستان میں رائج اس ظالمانہ، تباہی کی جانب لے جانے والے، امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانے والے، بے حس و سفاک نظام کے خلاف کسی قسم کی علمی اور مسلسل جدوجہد کرنے سے یہ کہہ کر دامن بچا جاتے ہیں کہ بھائی، ہم کر ہی کیا سکتے ہیں!
چلیے، کچھ نہیں کرسکتے لیکن اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ قطع نظر رنگ و نسل و مذہب، اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنے خالق سے، سارے جہانوں کے بادشاہ سے مسلسل، روزانہ جب اپنی حاجتیں مانگیں، اپنے لیے دعائیں کریں تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے چند لمحے مزید صرف کرکے اپنے پیارے وطن کےلیے بھی دعائیں مانگ لیا کریں۔ جب لاکھوں کروڑوں ہاتھ اٹھیں گے اور تسلسل کے ساتھ ایک ہی دعا کی جائے گی، تو ان کروڑوں میں کوئی یا کچھ تو ایسے ہاتھ بھی ضرور ہوں گے جو اس کی بارگاہ میں درجہ استجاب رکھتے ہوں گے، کچھ تو ایسے ہوں گے جن کی وہ زیادہ سنتا ہوگا، کیا پتا کس کی دعا یا دعائیں قبولیت کو پالیں اور حالات بدل جائیں۔
اگر یہ بات کچھ دل کو لگے تو وقت دعا ان لوگوں کی ہدایت کی دعا بھی مانگ لیجیے جو اس ظالمانہ نظام کے تقویت دہندہ ہیں، فائدہ اٹھانے والے (بینیفشریز) ہیں، جو چاہتے ہیں کہ یہ ظالمانہ نظام یونہی قائم و دائم رہے، اور ان کے ذاتی مفادات و عیاشیاں ملک و عوام کی قیمت پر یونہی پوری ہوتی رہیں؛ اور دعا میں اس طرح کہیں کہ انہیں ہدایت توبہ اور کفارے کی توفیق ملے، اور اگر یہ سب ان کے نصیب میں نہیں تو پھر ان کا کڑے سے کڑا احتساب ہو اور دنیا میں ہی انہیں نشان عبرت بنا دیا جائے… آخرت کا علیحدہ رہا۔ اس طرح سے کم از کم ہمیں یہ خلش تو نہیں رہے گی کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔
ہم اگر عملی طور پر کچھ ٹھوس اقدام کرنے کے قابل نہیں، اپنے غم دنیا اور غم روزگار میں بری طرح سے پھنسے ہوئے مجبورِ محض ہیں تو کم از کم اس درجے میں دعا تو مانگ ہی سکتے ہیں۔ اگر ہم اتنا بھی نہ کر پائیں تو پھر کسی معجزے کا انتظار کریں جو ہم برسوں سے کر ہی رہے ہیں۔