ہر گلی کوچے میں ہر کسی کا ایک ہی رونا ہے: ملک کے حالات مناسب نہیں! ان سب رونے والوں سے میرا ایک ہی سوال ہے کہ کیسے بدلیں گے یہ حالات؟ کیا کسی فرشتے کے انتظار میں ہو یا امید رکھتے ہو کہ خدا آسمان کے پردوں سے اتر کر خود تمہارے حالات بدلنے آئے گا؟ اگر کسی ایسی خوش فہمی میں ہو تو تم احمقوں کی جنت میں رہتے ہو۔
جس دن تم خود بدل گئے، حالات بھی بدل جائیں گے اور نظام بھی بدل جائے گا۔
تم امید رکھتے ہو کہ حکمران ہمیں ایماندار ملے، کیا تم خود ایماندار ہو؟
اگر سچ میں تم اس ملک کو بدلنے کی خواہش رکھتے ہو تو پہلے خود کو بدلو۔ یہ حکمران، یہ وزیر مشیر، سب ہم میں سے ہی تو آئے ہیں تو وہ کیسے کرپٹ نہ ہوں؛ وہ بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہیں۔
اس ملک میں بیٹھا ہر شخص اپنی اپنی حیثیت کے مطابق لوٹ مار میں مصروف ہے۔ تھانے کے دروازے پر بیٹھا کانسٹیبل پانچ سو میں ایمان بیچ رہا ہے۔ کچہری میں بیٹھا کلرک ہزار میں ایمان بیچ رہا ہے۔ بجلی کمپنی کے دفتر میں بیٹھا افسر پانچ ہزار میں ایمان بیچ رہا ہے۔ لازم ہے پھر کے وزیر کروڑ میں ایمان بیچ رہا ہو اور… جس کا جہاں تک ہاتھ لگ رہا ہے، لگا رہا ہے، لوٹ رہا ہے۔ تو اگر تم سچ میں اس نظام کو بدلنا چاہتے ہو، ملک سنوارنا چاہتے ہو تو خود سے ابتداء کرو۔
آج خود سے وعدہ کرو میں کرپشن نہیں کروں گا، اس ملک کو سنواروں گا۔
اب تم سوچتے ہوگے میں کیسے کرپٹ ہوں؟ میں تو حکومت میں نہیں ہوں! میں تو کسی سرکاری ملازمت سے وابستہ نہیں ہوں۔ تو سنو! کیا تم بینک اور تھانے کے چکر سے بچنے کےلیے ٹریفک پولیس کو پیسے دے کر جان چھڑوانے کی کوشش نہیں کرتے؟
کیا تم کچہریوں میں اپنے کام کو جلدی کروانے کےلیے رشوت کے پیسے نہیں کھلاتے؟ کیا ہم ہی وہ لوگ نہیں جو اپنے گیس بجلی کے میٹر لگوانے کےلیے، ریڈنگ کم کرنے کےلیے رشوت دیتے ہیں۔
جھانکو اپنے گریبانوں میں، تمہیں جس دن اپنی غلطیاں نظر آجائیں اور تم انہیں ختم کرنے کی جستجو میں لگ جاؤ تو سچ میں، ہاں! تب تمہیں حق حاصل ہے کہ تم کہو کہ ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں۔ اور پھر گلہ کرنے سے بہتر ہے کہ قدم اٹھاؤ، سیاست میں آؤ، حکومتوں میں آؤ، سرکاری ملازمتوں میں آؤ اور اٹھا لو اس جھنڈے کو جسے قائداعظمؒ نے اٹھایا تھا؛ اور بدل دو یہ نظام یہ حکومتیں اور یقین جانو اس دن خدا کی نصرت بھی تمہارے ساتھ ہوگی۔
جس دن ہم سب درست ہو گئے، یہ نظام بھی بدلے گا یہ ملک بھی بدلے گا حالات بھی بدلیں گے۔
ہمارے مے کدے کا اب نظام بدلے گا
ہم اپنا ساقی بدل دیں گے جام بدلے گا
ابھی تو چند ہی مے کش ہیں باقی سب تشنہ
وہ وقت آئے گا جب تشنہ کام بدلے گا
یہ اُلٹی اُلٹی ہوائیں ہیں وجہ سست روی
ہوائیں بدلیں گی طرز خرام بدلے گا
بدلتی رہتی ہیں قدریں رحیل وقت کے ساتھ
زمانہ بدلے گا ہر شے کا نام بدلے گا
ہم اپنی تلخ نوائی میں رنگ بھر دیں گے
ہمارے ساتھ ہمارا کلام بدلے گا
یہ عرش و فرش کی تفریق کچھ نہیں وامقؔ
بلند و پست کا معیار خام بدلے گا
(وامق جونپوری)