لاہور (ویب ڈیسک)اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کو ذرا بھی تاخیر سے مت کرو۔ جو کام کرنا ہو اسی وقت کرو۔ سستی اور کاہلی سے حد درجہ بچنے کی کوشش کرو ۔ متحرک رہو اور ہر کام کو وقت پر کرنے کو اپنا شعار بناؤ۔ نہ تو لوگوں کی تنقید پر کان دھرو اور نہ ہی دوسرے لوگوں پر کسی قسم کی تنقید کرو۔ جب ہم کسی اور پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا حوصلہ پست کرتے ہیں اور دنیا مکافات عمل ہے۔ جو برا کرو گے لوٹ کر تم پر ہی آجائے گا۔ ابراہام لنکن کہتا ہے:کسی دوسرے پر تنقید کرنے سے پہلے اس بات کو سمجھ لو کہ اگر تم بھی انہی حالات کا شکار ہوتے جیسے وہ دوسرا ہے تو تم بھی شاید وہی حمکت عملی اختیار کرتے۔ کسی اہم انسان یا چیز کوکبھی نظر اندا زمت کرو۔کچھ لوگ ہماری زندگی میں بہت مثبت کردار ادا کرتے ہیں اور وہ ہمارے لیے قابل قدر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نظر انداز کرنے سے ہم ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ اس سے گریزکرنا چاہیے۔ کچھ چیزیں بھی ہمارے لیے بہت اہم ہو سکتی ہیں جیسے وہ آلہ کار جس سے آپ روزی کماتے ہو، آپ کی گاڑی آپ کا گھر۔ ان کا بھی خوب خیال رکھنا چاہیے۔جب کسی انسان یا چیز کی حفا ظت ٹھیک سے کی جاتی ہے اور اس کا خیال رکھا جاتا ہے، تو وہ ہمیشہ تروتازہ اور نئے نئے رہتے ہیں۔کسی بھی چیز کی زیادتی انسان کے لیے مضر ہوتی ہے۔ زیادہ کھانا، زیادہ سونا، زیادہ سوچنا، زیادہ بولنا، زیادہ ہنسنا، زیادہ رونا، کوشش کرو کہ ہر کام اور ہر چیز کو میانہ روی کے ساتھ اختیار کرو۔ دنیا کا سب سے گھٹیا کام بہانہ بازی ہے۔ اس سے ہمیشہ باز رہو ۔ جو انسان بہانے بناتا ہے وہ پھر صرف یہی کام کرنے جوگا رہ جاتا ہے۔ جتنا بھی برا ہوا ہو اور جو مرضی ہو جائے اپنا کام پوری ذمہ داری سے کرو اور اگر کسی اور کی غلطی بھی ہو تو بھی کوئی بہانہ مت بناؤ بلکہ بے شک اوروں کی غلطیاں بھی اپنے سر لے لو۔ اس سے خدا تم پر رحم کرے گا۔جو چیز اصل میں انسان کی ہر سوچنے سمجھنے کی حس کو بالکل بیکار کر دیتی ہے، وہ انسان کا ضرورت سے زیادہ پریشان ہونا ہے۔ حد سے زیادہ پریشان ہونے سے آپ میں کسی کام کو انجام دینے کی سکت نا پید ہو جاتی ہے۔ خداراہ زیادہ ٹینشن لینا بند کر دو۔ ڈرنا چھوڑ دو۔ انسان جب خوف کا شکار ہوتا ہے تب بھی اس کی کارکردگی بہت متاثر ہوتی ہے۔ خوف اور ڈر ایسی بلائیں ہیں جو بذات خود اس قابل ہیں کہ ان سے ڈرا جائے بجائے اس کے کہ آپ کسی اور حیوانی بلا سے ڈریں۔زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا؟آپ کو کوئی ٹھکرا دے گا؟ آپ کی شادی ٹوٹ جائے گی؟ آپ کی جاب چلی جائے گی؟ ان باتوں سے ہم جتنا ڈرتے ہیں اتنا حساس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ شادی ٹوٹے گی تو کسی اور سے ہو جائے گی۔ جاب جائے گی تو اور مل جائے گی۔ کوئی ٹھکرا دے گا تو دنیا اور انسانوں سے لدی پڑی ہے۔ انسان کسی بھی کام کو ٹھیک سے نہیں کر پاتا اگر وہ ڈر اور خوف کا شکار ہو جائے اور سب کو دل سے ناکامی سے بہت خوف آتا ہے لیکن خود کو یہ باور کرانا چاہیے کہ سب کچھ ختم ہو جائے، سب برباد ہو جائے تو بھی انسان نئے سرے سے اپنی اچھی زندگی کا آغاز با آسانی دوبارہ کر سکتا ہے۔ کسی بھی غلطی کے لیے خود کو اور اوروں کو الزام دینا بند کر دو۔ انسان کا ضمیر سب سے منصف جج ہے اور وہ خود سب سے بہتر جانتا ہے کہ کس کی کیا غلطی تھی۔ اپنا ضمیر مطمئن رکھو تو تم پر سکون رہو گے۔کبھی کسی کے ساتھ غلط نہ کرو تو تمہیں کسی اور کے کسی امر سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو انسان کسی کا حق مارے وہ پر سکون نہیں رہ سکتا۔ شکایات کرنا بند کرو۔ جتنا وقت ہم شکایتیں کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں اس میں تو ہم بہت سے کام نمٹا بھی لیتے۔انسان کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گلے شکوے کرنا پسند کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی اور کو آپ سے فرق پڑتا تو وہ ایسا کچھ کرتا ہی نہیں کہ آپ کو شکایت کرنے کی ضرورت پڑتی تو پھر غلط امیدیں مستقبل میں لگانے کا بھی بھلا کیا فائدہ۔ اس نے آپ کے گلے شکوے سن کر کونسا بدل جانا ہے۔ اپنا وقت ضا ئع کرنا چھوڑ دو۔ جب ٹی وی دیکھتے ہو، اخبار پڑھتے ہو یا کوئی بھی ایسا کام کرتے ہو جس میں وقت کے ضیاع کا خدشہ ہو تو بہتر ہے کہ اپنا وہ وقت بھی ایسی فملیں دیکھو جو تمہارے کام سے تعلق رکھتی ہوں،اخبار میں ایسے مضامین نکالو جو تمہیں تمہاری فیلڈ میں بھی مدد دیں۔ اپنے پسندیدہ مشغلے ضرور کرو مگر ان کو بھی ایک مثبت رخ دے دو۔ اس سے تمہارا وقت بھی اچھا گزرے گا اور تمہیں اپنے کام میں بھی مزید مہارت حاصل ہو جائے گی۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ حالات برے ہونے پر دنیا کو کوستا ہے، خود کو اس سے روکو کیونکہ اس طرح تم ایک کڑوے انسان بن جاؤ گے اور باقی لوگ تمہارے ساتھ بیٹھنا اور بات چیت کرنا بند کر دیں گے۔ کچھ بھی برا ہو تو اس کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہراؤ۔ اس سے تم میں ذمہ د اری لینے کا جذ بہ اجاگر ہو گا اور تم جب بھی بولو گے کسی اور کو تنگ نہیں کرو گے۔ جو انسان بے ضرر ہو اس کے ساتھ لوگ رہنا اور بات چیت کرنا پسند کرتے ہیں۔غیبت کرنا بالکل چھوڑ دو۔ جب ہم کسی پر غصہ ہوتے ہیں تو بہت دل کرتا ہے کہ اس کے بارے میں کسی اور سے بات کریں لیکن ایک بار پھر اس میں بھی ہم صرف اپنا ہی وقت ضائع کرتے ہیں کیونکہ کسی اور کو برا بھلا کہہ کر ہمیں کیا فائدہ مل جائے گا۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھو کہ کام بہت اہم ہے لیکن آپ کی زندگی اور اس کی خوشیوں سے ز یادہ نہیں۔ ہر چیز کو اس کی درست جگہ پر رکھو۔ جب انسان اپنی ترجیحات کو ٹھیک ٹھیک متعین کر لیتا ہے تووہ اپنی ز ندگی کا سب سے مشکل مرحلہ پار کر لیتا ہے۔ کام کرو لیکن اس کو بالکل سر پر سوار مت کرو۔ جب ہم زیادہ کام کرنے لگیں تو یہ ایک نیچرل بات ہے کہ اس کی کوالٹی گرے گی۔ اور اگر انسان ایک تخلیقی دماغ اور مثبت سوچ کےساتھ کم کام بھی کرے گا تو وہ کہیں بہتر ہو گا۔ دن میں وہ وہ وقت متعین کرو جن اوقات میں تم بہترین کام کر سکتے ہو یا تمہیں سب سے زیادہ ذہنی یکسوئی حاصل ہو سکتی ہے۔ جوکام انسان فوکس کے ساتھ کرتا ہے، وہ بہت کم وقت میں بہت اچھے طریقے سے انجام دے دیتا ہے۔ وہی کام اگر دھیان دیے بغیر کرے تو بالکل الٹا اور غلط کرے گا۔منفی باتیں سوچنے سے کنارہ کشی اختیار کرو۔ اس سے تمہارے اپنے ذہن اور ماحول پر بہت برا اثر مرتب ہو گا۔ کم بولو زیادہ سنو۔ اس میں تمہارا بہت فائدہ ہے۔ باتوں کو بڑھا چڑھا کر بتانا آدھا سچ آدھا جھوٹ ہوتا ہے، اس سے حد درجہ گریز کرو۔ کوشش کرو کہ اپنے کام میں تجدید لاؤ۔ اگر جیسا ابھی ہے ویسا ہی کرتے رہے تو اس کی قدروقیمت وقت کے ساتھ ساتھ گرتی جائے گی۔اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنا کام کرتے ہوئے ٹھیک ہے ورنہ لوگوں سےکنارہ کشی مت اختیار کرو۔ دن میں خواب دیکھنا بند کر دو۔ جب انسان اپنی خوابوں کی دنیا میں زیادہ وقت گزارتا ہے تو وہ اصلی دنیا میں فراغت کے اوقات بسر کر رہا ہوتا ہے اور یہ ایک دفعہ پھر وقت کا ضیاع ہے۔ جتنا علم زیادہ ہو اتنی آگہی اور شعور بڑھتے ہیں۔ اپنے علم میں ہر وقت اضافہ کرنے کی کوشش کرو۔ کسی چیزکے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تو بولو کہ مجھے کچھ نہیں پتہ اور سوالات کر کے اس چیز کے بارے میں جانو۔ اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے۔ کوئی بھی مثبت سوچ والا انسان اس لیے ہنستا ہے کہ دل کا بوجھ ہلکا کر لے ۔ بری باتوں کو بھلا دے لیکن کوئی بھی منفی سوچ والا آدمی ہنسنا ہی بھول جاتا ہے۔ پختہ ارادہ کر لو کہ حالات جتنے بھی سنگین ہو جائیں تم نے کبھی کام چھوڑ کر بھاگنا نہیں ہے۔ اپنی پوری جان لگاؤ اور ہر طرح کے حالات کو مقابلہ ڈٹ کر کرو۔ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ ڈٹا رہے۔