لاہور: زندگی میں جہاں خوش قسمتی میاں نوازشریف کا سواگت کرتے ہوئے اعلیٰ ترین منصب پر لے جاتی وہیں بدقسمتی تعاقب کر کے پستی میں گراتی اور جیل پہنچاتی نظر آتی ہے۔ وہ تین بار مملکت خداداد پاکستان کے وزیراعظم بنے آج دس سال کے لئے جیل میں ہیں۔
وہ تینوں بار منتخب ہو کر پاکستان کے وزیراعظم بنے اور ایک بار بھی مدت پوری نہ کر سکے۔ ان کو جب بھی اقتدار سے الگ کیا گیا ہر بار یہی تاثر سامنے آیا کہ ان کی سیاست ختم ہو چکی ہے مگر اگلی مرتبہ ان کی سیاست پر گرفت مزید مضبوط پائی گئی۔ بادی النظر میں عمران نے جو وعدے کئے وہ پورے ہو گئے تو نوازشریف کی سیاست منصہ شہود سے غائب ہو سکتی ہے۔ عمران خان بھی روائتی وزیراعظم رہے تو جن قوتوں کو پچھاڑ کر وہ آگے بڑھے ہیں وہ ان کو لتاڑ کر انہیں پیچھے چھوڑ جائیں گی۔ کچھ لوگوں کو میاں نوازشریف کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ یہ تو بظاہر نظر آنے والی بات ہے۔ اللہ کے حضور جو فیصلے ہوتے ہیں انہیں وہی ذات جانتی ہے۔ ناممکن نہیں کہ نوازشریف پھر وزیراعظم بنیں۔ ان کی خواہش امیر المومنین بننے کی تھی۔ خدا چاہے تو کوئی طاقت اس خواہش کے بر آنے کو روک نہیں سکتی۔ مستقبل کے حوالے سے یہ سب تصوراتی باتیں اور خواب ہیں مگر ماضی اٹل حقیقت ہے۔ میاں نوازشریف ایک بار پھر اقتدار میں آتے ہیں تو اب وہ جس پائے کی شخصیت ہیں ان کیلئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہو سکتا۔ مجھے 2009ءمیں عمران خان کے ساتھ مختصر سا مکالمہ یاد آ رہا ہے۔ پام کلب میں شوکت خانم ہسپتال کی فنکاروں کی معیت میں فنڈ ریزنگ تقریب تھی۔ عمران خان اس میں بروقت آ گئے ۔ ان کے گرد کوئی جمگھٹا نہیں تھا، میں نے ہسپتال کے میڈیا منیجرخواجہ نذیر سے عمران خان کے ساتھ بات کرانے کو کہا تو وہ ان کے پاس لے گئے۔ وہ گیٹ سے سٹیج کی جانب جانیوالے راستے پر کھڑے تھے۔ زرداری صاحب کی قیادت میں پی پی پی کی حکومت تھی جو کچھ اگلے تین چار سال میں ہونا تھا اس کے آثارہویدا اور نمایاں ہونے لگے تھے۔ ان دنوں عمران خان کی توپوں کا رخ ن لیگ کی طرف نہیں ہوا تھا، پی پی نشانے پر تھی۔ عمران خان تک کامیابی کا گُر عباس اطہرنے بذریعہ میاںمحمود الرشید پہنچایا۔ محمود الرشید کی زبانی سنا کہ عباس اطہر نے پیغام دیا، سیاست میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو پی پی پی کے بجائے مسلم لیگ ن کے پیچھے پڑ جاﺅ۔ عمران خان نے اس نسخہ کیمیا پر عمل کیا اور آج منزل مراد پر پہنچ گئے۔ عمران نے پی پی پی سے بھی رعایت نہیں کی۔ ہاتھ ملاتے ہوئے عمران خان سے پوچھا جو کچھ ہو رہا ہے اس کا حل؟ جواب تھا ”نوشا رٹ کٹ صرف جمہوریت!“ یہ اتنی ہی ملاقات تھی۔آج عمران خان اسی جمہوریت کی ٹرین پر سوار ہو کر مقتدر ایوان میں پہنچے ہیں جس پر بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف پانچ بار آئے اور ان کے ہر بار کی طرح آج بھی دھاندلی دھاندلی کا غوغا ہے۔ 2018ءکے انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کے قائدین عمران، شہباز، زرداری، بلاول پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ مولانا فضل الرحمن، اسفند یارولی، محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو اس اعزاز سے محروم رہے۔ مولانا شدید کرب میں دیکھے گئے۔ ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہم خیال جماعتوں کو،جو اب گرینڈ اپوزیشن الائنس کا روپ دھار چکی ہیں ،حلف برداری سے باز رہنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اب متنازعہ وزیراعظم کو نہ ماننے اور پہیہ جام کا اعلان کیا ہے۔ مولانا ہر صورت دو بارہ انتخاب چاہتے ہیں۔ پی پی اور ن لیگ اس حد تک جانے کو تیار نہیں۔محاذ جنگ پر رات کو مورچے پر تنے تمبو سے روشنی کی باریک سی لکیر نظر آئی، پٹرولنگ پارٹی کے ہیڈ نے اندر جھانکا، ایک جوان کچھ پڑھ رہا، دوسرا اس کے کانوں پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ پوچھنے پر جوان نے بتایا، میرے گھر سے خط آیا ہے میں ان پڑھ ہوں ، اس سے پڑھوا رہا ہوں۔ یہ خط سن نہ لے اس لئے کان پر ہاتھ رکھ دیئے۔ دو سردار بھائی باپو کا کریا کرم کرکے راکھ پوٹلی میں باندھے گھر آرہے تھے ۔ ایک نے کہا بھاجی! گھر جائیں، باپو آ گے بیٹھا ہو تو سواد آ جائے۔ مولانا بھی اسی طرح حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں۔کل یوم آزادی ہے، مولانا غم و غصے کی کیفیت سے نہیں نکل سکے۔ فرماتے ہیں کہ یوم آزادی نہیں منائیں گے ۔ آپ کچھ بھی منانے یا نہ منانے میں آزاد اور خود مختار ہیں۔ سب سے پہلے اپنے حلقوں کے لوگوں کو منائیں۔ انہوں نے شاید فاٹا کے حوالے سے مولانا کی پالیسیوں کو پسند نہیں کیا۔ اسی صورت حال کے ”کھوبے“ میں محمود اچکزئی پھنس گئے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ پاکستان زندہ باد اس شرط پر کہوں گا جب پشتون، سندھی، سرائیکی زندہ آباد کہاجائے گا۔ وہ کس کی زبانی یہ نعرہ سننا چاہتے ہیں؟ پاکستان زندہ باد میں سب آ جاتے ہیں۔ اسی میں شاید پنجابیوں کے آنے کا اچکزئی صاحب کو ملال ہے۔ ان کا پورا خاندان گزشتہ پانچ سال اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں رہا ۔ بھائی اب بھی گورنر ہے۔یہ سب پنجابی وزیراعظم کے مرہون منت ہے۔مولانا فضل الرحمن کے والد محترم مفتی محمود نے فرمایا تھا ،شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں۔ ان کے فرزند ارجمند نے اپنے بزرگوں کے اقوال ، افکار اور ارشادات سے کبھی لاتعلقی ظاہر نہیں۔ وہ ریاست مدینہ کی طرز پر نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاکستان کے استحکام کیلئے کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کرکے ثواب دارین بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ فاروق ستار کہتے ہیں جو کچھ مولانا نے کہا ہم نے کہا ہوتا تو ”را“ کے ایجنٹ قرار دیا جاتا“۔ فاروق ستار بھائی! ایسے لوگوں کو قوم کو کون سا”اوتار“ سمجھتی ہے۔ پاکستان کے خلاف متحدہ کے سربراہ اور چیلوں نے بھی کم ہرزہ سرائی نہیں۔ یہ لوگ کھاتے پاکستان کا، حکومت پاکستان میں کرتے ہیں،جڑیں بھی اسی کی کاٹتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف زہرافشانی کے باعث محب وطن پاکستانیوں کا دل کٹتا اور خون جلتا ہے ۔جذبات میں آکر کہہ دیتے ہیں، ان لوگوں کا پاکستان پر حق نہیں یہ وہاںچلے جائیں جن کے پروردہ ہیں مگر ہم ایسا نہیں کہتے۔ پاکستان کی حفاظت کریں، نہ کریں، پاکستان ان کو عزت ، احترام، تحفظ اور اقتدار دیتا ہے۔ پاکستانی اتنے سمجھدار ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف زبان درازی کرنیوالوں کو ووٹ کے ذریعے ذلت سے دوچار کر دیتے ہیں، سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رہنے دیتے۔ یہی ایسے لوگوں سے جمہوری انتقام ہے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں کو لکیر قرار دے کر مٹا دینے کی خواہش رکھنے والوں کو قوم نے پرچی کی طاقت سے ہٹا دیا ہے۔ یہ ہے ووٹ کی طاقت۔!!