۔ بھلا عمران خان کوجلدی کیسی، تیزی کیوں؟ تیز چلو گے، جلد مروگے۔ بفرض محال، پانامہ کاغذات میں وزیراعظم بے گناہ ٹھہرتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست کہاں ہوگی؟، انجام، راکٹ سائنس نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی اگر ہلکان ہوتی ہے تو وطنی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنا ہے۔ ن لیگ کا میدان سیاست میں اکیلے دندنانا، خود مسلم لیگ (ن) کو مضمحل کر جائے گا۔ اے قوم، تیرے بھاگوں پر ناز، ملک کی مقبول اپوزیشن پارٹی، تعلیم یافتہ نوجوان دل و جان سے نچھاور، فریفتہ ،آج اپاہج اور محتاج بن کر آسودہ حال ہے۔ سیاست، پلاننگ، فیصلے سب کچھ سطحی۔ سیاست میں گہرائی کیسے آسکتی تھی۔ کاش عمران خان کو کوئی یہ سمجھائے کہ تحریک انصاف کو ضعف یا بٹہ، مسلم لیگ (ن) حکومت کو مضبوط اور مستحکم کرتا ہے۔ عمران خان کی خام خیالی سے غرض نہیں، یقیناً سپریم کورٹ کسی بھی سیاسی یا غیرسیاسی دبائو میں نہیں رہے گی۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا نام ہی کافی ہے۔ گزارش اتنی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے پہلے دکھائے بھی اور عیاں بھی رکھے۔
عمران خان نے اپنے اوپر ایک اور حملہ داغ دیا۔ ترک صدر کے 17نومبر کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان، مضحکہ خیز اور احمقانہ ہی ہے۔ جتنی لعنت ملامت پچھلے دو دنوں حصے میں آئی، تحریک انصاف کو چاروں شانے چت کر گئی۔ خطۂ ارضی پر کوئی دوسرا ملک بھی، جس کے لیڈر، غیرملکی سفارت خانے جا کر غیرملکی سفیر سے مشورہ، استفسار کریں کہ’’ہم پارلیمان کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں؟ سفارتکار کی رائے، مشورہ چاہئے؟‘‘سفیر نے ادب، آداب کے ساتھ ڈانٹ پلا دی۔ وفد الٹے پائوں واپس، چیئرمین کے پائوں میں،منت سماجت اور گریہ وزاری کہ چیئرمین عقل کے کچھ ناخن لینے پر مجبور ہوہی گئے۔ پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا۔ جب تک یہ کالم قارئین کے سامنے ہوگا، تحریک انصاف کی ہائی کمانڈ کسی نتیجے پر پہنچ چکی ہوگی۔ قوی امید کہ پارلیمان کے بائیکاٹ کی ہزیمت سے بچا جائے گا۔ عمران خان کاسوچے سمجھے بغیر فیصلے کرنا، ڈٹ جانا، سوچ بچار کے بعد الٹے پائوں پلٹ جانا، یوٹرن روزمرہ کا معمول ہی تو ہے۔ ایسے موقع پر پارٹی کا متفقہ فیصلہ اجلاس میں شرکت کا ہی تھا۔ ہر اہم فیصلے پر، ہر اہم موڑ پر پارٹی متفقہ فیصلوں کو بلڈوز کرنا، مالک مکان کا مرغوب مشغلہ بن چکا ہے۔ اہم فیصلوں پر پارٹی کا عمومی اتفاق جبکہ چیئرمین کا اپنے فیصلے کو ٹھونسنا معمول بن چکا ہے۔ چند سیانوں (جن کے گھر دانے) کی حمایت ضرور رہتی ہے۔ اس سے پہلے مسئلہ کشمیر اور بھارتی جنگی جنون کے اوپر پارلیمان اجلاس کے بائیکاٹ کا سہرا سر باندھ چکے ہیں۔ مضحکہ خیز اتنا ہی کہ وزیراعظم ہائوس میں ’’متنازع‘‘ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں شرکت کرلی۔ یہاں ایک جملہ معترضہ، عمران خان ویسے تو میانوالی سے دوسری دفعہ منتخب ہوئے۔ دونوں بار پارلیمنٹ میں شرکت بدترین رہی۔ بمطابق پلڈاٹ رپورٹ، سب سے کم شرکت کرنے والے ممبرز میں’’فرسٹ‘‘ ہیں۔ یادش بخیر! 2002 میں جب قائد محترم کی انتخابی مہم تندہی سے چلا رہا تھا۔ مخالف امیدوار عبید اللہ خان کے بارے سب سے مضبوط موقف اور دلیل اتنی تھی ،کہ گونگا پہلوان اسمبلی میں بھیج کر علاقہ نمائندگی سے محروم ہو جائے گا۔ اللہ کے ہاں بات ناپسندیدہ ٹھہری ۔ آج عملاً پورا ضلع میانوالی قومی اسمبلی میں نمائندگی سے محروم ہے۔ عمران و عبید اللہ و امجد، کچھ فرق نہیں ان ساروں میں۔ حیف! میانوالی کی قسمت ہی کھوٹی رہی۔ میانوالی کے لوگ مولانا عبدالستار خان نیازی کو منتخب کرنے کا ذائقہ چکھ چکے تھے۔ ان کی گھن گرج اور دھاڑوں سے ایوان آج تک لرزتے دیکھ ،سن چکے۔ ’’کہاں راجہ بھوج کہاں آج کے گنگو تیلی‘‘ ۔
کوئی ہے جو عمران خان کی احمقانہ، فرمائشی بے ہنگم سیاست کی لگامیں کھینچ پائے گا؟ حیف! مستند و مقبول اپوزیشن پارٹی اپنی لگامیں امپائرز کو پکڑا چکی۔ قوم کا امتحان یہ ’’پتلی تماشہ‘‘ اگلے دو ہفتے زوروں پر رہے گا۔ امپائرز کی مدد سے اکھاڑے میں کشتی کا میچ تو جیتا جا سکتا ہے باکسنگ میں نہتے فریق کو ناک آئوٹ کیا جا سکتا ہے۔ مخالف کی ہڈیاں توڑی جا سکتی ہیں۔ پیروں کے نیچے کچلا جا سکتا ہے۔ جسمانی طاقت اور کرتب کے مظاہرے بھی ان کی مدد سے جیتے جا سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے ،ذہنی آزمائش پروگرام اور مدبرانہ سیاست اس طرح ممکن نہیں۔ امپائرز اور نہ ہی کھلاڑیوں کے بس کا روگ ہے۔ خواری، رسوائی ہی مقدر بنے گی، کہ وطن عزیز تحفہ خداوندی ہے، حفاظت اللہ کرے گا۔
جن لوگوں پر تنگ آمد ہے ان کے لئے ’’بجنگ‘‘ یا ’’شب خون‘‘ آمد، فروری، مارچ 2016 میں ہی ممکن تھی۔ اگر تب جرات نہیں رہی تو اب کیسے ممکن ہے؟ عمران خان کو کیسے سمجھایا جائے کہ وقت کم ہے، بالکل ساتھ نہیں۔ عمران خان اور ہمنوا ایڑیاں رگڑیں، واویلا کریں، روئیں پیٹیں، بال نوچیں، گو اگلے دو ہفتوں نے ایسے ہی ارتعاش، ہیجان، ہچکولوں کی زد میں رہیں گے، بخوبی گزر جائیں گے۔
عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے جہانگیر ترین اور علیم خان ’’اپنی کارکردگی اور مہارت‘‘ سے عمران خان کو آگاہ رکھ سکتے تھے کہ پانامہ لیکس کو عدالت میں ثابت کرنے کا عزم، گھاٹے کا سودا نہ بن جائے۔ بھلا رکھتے کیوں؟ یہی تو ہیں جو رقعہ لکھوا کر لاتے رہے، پہنچاتے رہے۔ تحریک انصاف بھگت رہی ہے۔ غیر ضروری، اخباری تراشوں، خبروں، ناموں پر مشتمل کیس عدالت کے سامنے پیش کرکے سبکی اور بدنامی ہی کمائی۔ یہ کیسے نابغے؟، مخالف فریق کو اپنے دفاع کے حق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ نوازشریف فیملی دفاع کے جتن کرتی ہے، طعنے، تشنیع اور تضحیک سے نوازا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بچوں کے وکیل تبدیل کرنے پر دقیق و گمبھیر لے دے کی۔ شوشہ چھوڑا کہ یہ سب کچھ کیس کو موخر کرنے کے جتن ہیں۔ اگلے دن ہی منہ کی کھانی پڑی جب سارے اندازے غلط نکلے۔ اکرم شیخ نے اضافی محنت کو ترجیح دی، مین میخ نکالنے والوں کو شرمندہ رکھا۔ سینئر وکیل اکرم شیخ صاحب نے خم ٹھونک کر اعلامیہ جاری کیا کہ ’’کسی صورت وقت نہیں مانگوں گا،دفاع آج ہی سے کروں گا۔ کیس کو جلد از جلد ختم کرنے کی استدعا کی‘‘۔ نوازشریف فیملی منظم کرنے کے قانونی حق سے بھی رضاکارانہ دستبردار رہی تاکہ کیس جلد ازجلد اپنے منطقی انجام پر پہنچ سکے۔ عمران خان کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا لائحہ عمل اختیار رکھنا تھا؟ کیس کی ضرورت تھی کہ سپریم کورٹ کے سامنے فول پروف ثبوت پیش ہوتے۔ بیرون ملک اپنے وسائل سے ’’منی ٹریل‘‘ کی فرانزک رپورٹ بنواتے۔ عندیہ بھی دیا تھا۔ کاش کوئی ایسی تحقیقی، تفتیشی رپورٹ آجاتی۔ سنجیدگی تھی نہیں۔ ایسا کنفیوژن ، ایسی غیرسنجیدگی۔ آج کی تاریخ میں کیس کے بارے میں ڈاکومنٹس، زرد صحافت، اخباری تراشے، فٹ پاتھ سے ڈھونڈی کتابیں بطور ثبوت پیش کیں، اپنا مذاق اڑوایا۔ سپریم کورٹ یقینا ًانصاف کے سارے تقاضے پورے کرے گی۔ عمران خان کو پانامہ کیس میں انصاف ملنا بھی چاہئے۔ جہاں عمران خان کو انصاف ملنا چاہئے وہاں وزیراعظم کو اپنے دفاع کا اتنا ہی موقع ملنا چاہئے۔ وزیراعظم اور فیملی کے حق دفاع پر ان کی تضحیک اور پھر ہیجانی کیفیت ،پستی اور گراوٹ کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کر چکے۔ سو باتوں کی ایک بات، سپریم کورٹ کا سیاسی یا غیرسیاسی دبائو میں آنا، ناممکن ہے۔ سپریم کورٹ کا آج کا پیغام بھی یہی، ’’انصاف کے تقاضے پورے کرکے ہی حتمی فیصلے پر پہنچیں گے‘‘۔تحریر: حفیظ اللہ نیازی ، بشکریہ جنگ