آج سے کوئی تقریباً 85 سال قبل 1932ء میں امریکا کی ریاست نیوجرسی کے علاقہ ہوپ ویل میں کرنل لنڈز برگ اس کی بیوی اینی لنڈزبرگ اور ان کا ایک 20 ماہ کا بچے چارلس رہتے تھے۔ ایک دن اس 20 ماہ کے بچے چارلس کو اغواکر لیا گیا۔
ان دنوں نیوجرسی میں شدید طوفافی بارش ہورہی تھی۔ مسٹر لنڈز برگ اوران کی فیملی اپنے بچے چارلس کے اغوا ہونے کے بعد اپنے گھرمیں غم اوربے بسی کی تصویر بنی بیٹھی تھی کہ گھر کی کھڑکی میں سے اچانک ایک پرچی آکر گرتی ہے۔ اس پر اغوا کار نے ٹوٹی پھوٹی جرمن طرز کی انگلش میں 50 ہزار ڈالر کا مطالبہ کیا تھا۔ والدین بچے کی جدائی سے بے حال ہو رہے تھے اور ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کے وہ کس کو بتائے، بلآخرلنڈز برگ نے علاقے کے ایک معزز جان ایف کونڈون سے مدد کی درخواست کی۔
جان ایف کونڈون نے پمفلٹ اور اشتہارات شائع کرائے جس میں انہوں نے اغوا کار کو ثالثی کی پیش کش کی۔ بہر حال مسٹر جان اور اغوا کار کے درمیان رابطہ ہوا۔ جس کے بعد مسٹر جان نے مبینہ اغوا کار برنو رچرڈ سے ایک قبرستان میں ملاقات کی اور اسے گولڈ سرٹیفیکیٹ کی شکل میں تاوان بھی ادا کردیا۔ لیکن اغوا کار نے چارلس کو اس کے ماں باپ کے حوالے کرنے کی بجائے اسے بیدردی سے قتل کردیا۔
20 ماہ کے اس بچے چارلس کے قتل پر نہ صرف نیوجرسی بلکہ پورے امریکا میں کہرام مچ گیا۔ ادھر عوامی غیض و غضب عروج پرتھا کہ اس وقت کے امریکی صدر ہربرٹ ہوور نے تحقیقاتی اداروں اور محکمہ انصاف کو تمام وسائل اور اختیارات تفویض کرتے ہوئے قاتل کو قانون کے شکنجے میں لانے کی ہدایت کی، ادھر امریکی کانگریس نے بھی فوراً ہی 22 جون 1932ء کو فیڈرل کیڈنیپنگ ہیلپ پاس کیا جو کہ لائنڈبرگ لا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت بچوں کے اغوا کی سزا موت رکھی گئی، تحقیقاتی ادارے سر پٹکتے رہے لیکن قاتل کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ کچھ وقت گزرا اور اپریل 1933 میں اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر پاس کیا جس کے تحت گولڈ سرٹیفیکیٹس کرنسی نوٹوں کی جگہ استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد پولیس کو پتہ چلا کہ نیو یارک میں ایک شخص نے گاڑی کی سروس کے عوض 10 ڈالر مالیت کے گولڈ سرٹیفکیٹس ادا کئے۔ ستمبر 1934ء کو پولیس نے چارلس کے قاتل برنو رچرڈ کو گرفتار کرلیا۔ قاتل برنو رچرڈ کے خلاف نیو جرسی میں ٹرائل شروع کیا گیا، اس ٹرائل کو (ٹرائل آف دی سینچری) بھی کہا جاتا ہے۔ عدالت نے اسے سزائے موت سنائی جس کے بعد قاتل برنو رچرڈ نے سپریم کورٹ میں رحم کی اپیل دائر کی جو مسترد کردی گئی۔ 3 اپریل 1936ء کو قاتل برنو رچرڈ کو الیکٹرک چیئر پر بٹھا کر سزائے موت دے دی گئی۔
لندز برگ کیس میں 20 ماہ کے بچے کے قاتل کو پکڑنے کیلئے امریکا میں جو خصوصی اقدامات کئے گئے ان میں امریکی صدر نے تفتیشی اداروں کو خصوصی اختیارات اور وسائل فراہم کئے، بچوں کے اغوا پر سزائے موت کا قانون متعارف کرایا گیا، گولڈ اور کرنسی ایکسچینج کا ایگزیکٹیو آرڈر پاس کیا گیا (کیونکہ تاوان گولڈ سرٹیفکیٹس کی شکل میں ادا کیا گیا تھا)۔ اسی طرح امریکی پولیس اور تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی جو ماضی میں یو ایس بیورو آف اینویٹی گیشن کہلاتی تھی۔اس نے لنڈزبرگ کیس میں 20 ماہ کے معصوم چارلس کے قاتل تک پہنچنے کیلئے تفتیش اور تحقیقات کیلئے خصوصی انتظامات کئے تھے۔
لنڈز برگا کیس کے بعد امریکی ریاست پاکستانی ریاست کی طرح سوئی نہیں بلکہ 20 ماہ کے معصوم چارلس کے قاتل کو پکڑنے کے لیے امریکہ میں جو خصوصی اقدمات کیے گئے۔ اس کیس کو امریکہ میں میڈیا نے بھرپور کوریج دی، اس کیس پر کئی ڈاکیومیٹریز بھی بنائی گئیں۔ عدالت میں ہونے والی سماعت کو ویڈیو کیمروں میں محفوظ کیا گیا۔ کیس کی سماعت کو کم سے کم وقت میں مکمل کیاگیا۔ ریاست نے تمام تر وسائل اور سنجیدگی سے اس کیس کو امریکہ کی تاریخ کا ایک مثالی کیس بنا دیا۔ اسے کہتے ہیں دنیا کی سپر پاور۔
یوں بنتی ہے دنیا کی کوئی بھی ریاست سپر پاور، یوں ریاست سر اٹھا کے جیتی ہیں اور یوں ریاست اپنی عوام کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اس طرح نہیں جیسے پاکستان میں زینب کے ساتھ کیاگیا۔ زینب کے والدین جنہوں نے اسے پالا، اسے ظا لموں نے ان سے چھین لیا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ زینب کو جنسی درندوں نے کیسے اپنے ساتھ جانے کے لیے کہا ہو گا۔ زنیب تو قرآن پاک پڑھنے جا رہی تھی۔ زینب کیا سوچ کر اس ظالم کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑی ہو گی۔ کا ش یہاں بھی کوئی نیوجرسی جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے جو چارلس کی طرح زینب کے قاتلوں کو پکڑتے، ان کو بھی الیکٹرک چئیر پر بٹھا کر سزا دیتے۔ کاش ہماری ریاست بھی بچوں کے اغواء پر کوئی سزائے موت کا قانون بنا لے تو پھر کوئی ظالم زینب جیسی بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے سے پہلے سو بار سوچے گا۔