لاہور (و یب ڈیسک) اللہ تعالیٰ ہم گنہگاروں کو بڑے بول سے محفوظ رکھے اور تکبر سے بچائے۔ ایسے معاملات میں بعد میں جب اپنے کہے ہوئے الفاظ تازیانے کی مانند واپس پلٹ کر لگتے ہیں تو سمجھ نہیں آتی کہ بندہ کہاں سر چھپائے۔ انگریزی میں ایسی صورتحال کے لیے ایک جملہ استعمال ہوتا ہے
نامور کالم نگار خالد مسعود خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
”To eat your words‘‘
۔ عمران خان کے ساتھ مسلسل یہی کچھ ہو رہا ہے اور خان صاحب کو ابھی بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسے دعوے نہیں کرنے چاہئیں‘جس میں ہر دوسرا جملہ ”میں‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ اس دنیا میں مالک ِکائنات نے انسان کو محدود اختیارات کے ساتھ بھیجا ہے اور ان محدود اختیارات کے ساتھ ”میں‘‘ پر مشتمل دعویٰ کس وقت باطل ہو جائے‘ کسی کو علم نہیں۔ ابھی کل کی بات ہے‘ خان صاحب نے بیان دیا ”جب تک زندہ ہوں‘ کسی کو این آر او نہیں دوں گا‘‘۔ اب صورتحال یہ ہے کہ الحمد للہ! خان صاحب حیات بھی ہیں اور این آر او بھی ہو چکا ہے۔ عملدرآمد کا اگلا مرحلہ کل پرسوں کی بات ہے۔ این آر او ہو بھی چکا ہے اور تسلیم کوئی نہیں کر رہا۔ این آراو دیا بھی نہیں اور جنہیں ملنا تھا مل چکا ہے۔ عجیب گھڑمس والی صورتحال ہے۔اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے سید حسن رضا گردیزی کو۔ کیا شاندار شاعر تھے اور کیا ہی عمدہ جملے باز۔ جملے بازی میں نہ کوئی مروت چلتی تھی اور نہ ہی کسی سے کوئی رعایت روا رکھی جاتی تھی۔جملے کی بندوق ہمہ وقت کندھے پر رکھی ہوتی تھی اور انگلی لبلبی پر۔ ذرا سا موقعہ دیں اور شاہ جی نے ”دھائیں‘‘ سے فائر کر دیا۔ نشانہ ایسا بے خطا کہ مقابل گھائل ہونے سے بچ ہی نہ پائے۔ کسی کے لیے کوئی رعایت نہ تھی۔ بڑے سے بڑا توپچی بھی ان کی جملے بازی سے محفوظ نہ تھا۔
ہاں یہ تھا کہ ہم جیسے عام تام لوگوں پر بعض اوقات اپنا جملہ صرف اس لیے بچا لیتے تھے کہ قیمتی جملہ ارزاں قیمت والی چیز پر ضائع نہ ہو جائے‘ وگرنہ وہ اس محاورے کی زندہ مثال تھے کہ ”بندہ ضائع جائے ‘لیکن جملہ ضائع نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ ایک دن کسی نے شاہ جی سے پوچھا کہ شاہ جی! کیا فلاں ذات والی لڑکی کی کسی دوسری ذات کے لڑکے سے شادی ہو سکتی ہے؟ شاہ جی نے ایک لمحہ توقف کیا اور پھر اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے؛ ہرگز نہیں۔ کسی ”فلاں ‘‘زادی کی شادی کسی غیر ”فلاں‘‘ سے نہیں ہو سکتی۔ (فلاں کے لفظ کو ذات کا متبادل سمجھا جائے)پھر جلال میں آ گئے۔(وہ اپنی مرضی سے جلال میں آتے تھے اور ان کے جلال میں آنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں تھا) اور کہنے لگے؛ آپ نے یہ بات سوچی بھی کس طرح؟ آپ کو اس بات کو سوچنے کی جرأت کیسے ہوئی ؟ آپ کے دماغ میں یہ قبیح خیال آیا ہی کیسے؟ پھر سر کو تین چار بار انکار میں ہلایا اور کہنے لگے ؛ تساں اپنے اس فاسد خیال تے توبہ کرو (آپ اپنے اس فاسد خیال پر توبہ کریں) کئیں ”فلاں‘‘ زادی دی شادی کئیں غیر” فلاں‘‘ نال نئیں تھی سکدی ۔ یہ کہہ کر ایک لمحے کا توقف کیا۔ جلال کے سارے آثار چہرے اور طبیعت سے رخصت کیے‘پھر نہایت ہی ملائم لہجے میں کہنے لگے؛ بچہ ! کئیں” فلاں‘‘ زادی دی شادی کئیں غیر ”فلاں‘‘ زادے نال نئیں تھی سکدی۔ ہا! نکل و نجے تا بئی گال اے۔
(بچہ! کسی ”فلاں ‘‘زادی کی شادی کسی غیر ”فلاں‘‘ زادے سے نہیں ہو سکتی۔ ہاں! وہ لڑکی اگر نکل جائے تب اور بات ہے) پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان صاحب کی وزارت ِعظمیٰ میں یہی حال اس وقت این آر او کا ہے۔ کسی کو دیا نہیں جائے گا۔ ہاں اگر کوئی خود بخود لے لے تو اور بات ہے۔ ہر طرف افواہوں کا زور ہے‘ اگر کوئی فریق صاف نظر آنے والی صورتحال میں بھی سچ نہ بول رہا ہو تو افواہوں کی سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس پوائنٹ بہت اوپر چلا جاتا ہے۔ یہی حال اس وقت ملک ِعزیز میں ہے۔ بڑے ذمہ دار اور ثقہ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی چار سو تینتالیس (443) ملین ڈالر خزانے میں جمع کروایا گیا ہے۔ بندہ پوچھے: کیا ”کوئی‘‘ اتنی رقم کیش کی صورت میں جمع کروا کر غائب ہو گیا جو جمع کروانے والے کا نام پتہ معلوم نہیں ہو رہا؟ اگر بینک ٹرانسفر ہے تب تو سارا علم ہوگا کہ کس اکائونٹ سے آئے ہیں اور کس مد میں آئے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک‘ شام دفتر سے گھر جا رہا تھا کہ اس نے اچانک دیکھا کہ اس کے گھر کے دروازے پر ایک بڑا صندوق پڑا ہے‘ جس کو کھولا تو اندر سے چار سو تینتالیس ملین ڈالر نکل آئے‘ جو لاوارث قرار دے کر حکومت ِپاکستان کے اکائونٹ میں جمع کروا دیئے گئے ہیں۔
ایسا عموماً پولیس کے پرچوں میں ہوتا ہے کہ ایک جگہ لاوارث ٹرک کھڑا تھا‘ تلاشی لینے پر اس کے خفیہ خانوں میں سے گیارہ من چرس برآمد ہو گئی۔ ٹرک نامعلوم افراد کا تھا‘لہٰذا بے نامی پرچہ ہو گیا۔ اب اس ”مبینہ‘‘ 443 ملین ڈالر کی سرکاری خزانے میں آمد بھی ویسی ہی ہوگی ‘جیسا اس گیارہ من چرس کی مال خانے میں آمد کا اندراج ہوتا ہے‘ تاہم ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یہ رقم واقعتاً میاں نواز شریف اینڈ کمپنی نے دی ہے (اس بات پر مجھے تو کم از کم بالکل یقین نہیں ہے) تو پھر حکومت یہ بات بتا کیوں نہیں رہی؟ عمران خان صاحب نے اگر کرپشن کا پیسہ وصول کیا ہے تو پھر وہ یہ بات قوم کو بتا کر اپنا مؤقف درست ثابت کیوں نہیں کرتے؟ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی نے اگر ”پلی بارگین‘‘ کیا ہے‘ تو پھر اسے افشاء کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ چار سو تینتالیس ملین ڈالر کی وصولی اتنی معمولی بات نہیں کہ چھپ سکے اور ڈیل نہ کرنے اور این آر او نہ کرنے کے دعوے کے بعد میاں صاحب کی رہائی اورملک سے باہر متوقع روانگی نے عمران خان کو جس مصیبت میں ڈال دیا ہے‘ اس سے نکلنے کا صرف یہی ایک راستہ تھا کہ عمران خان قوم کو بتاتے کہ میں نے چوروں، لٹیروں اور کرپشن کرنے والوں سے اس ملک کا لوٹا گیا پیسہ واپس نکلوا لیا ہے اور اب اس رقم کی وصولی کے بعد میں انسانی ہمدردی پر انہیں چھوڑ رہا ہوں۔ اس کے بعد اس سارے عمل کو سیاسی عداوت اور ذاتی مخالفت کہنے والوں کے غبارے سے بھی ہوا نکل جاتیاور آئندہ کے لیے کوئی سر اٹھا کر اپنی بے گناہی پر اصرار نہ کرتا‘ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔افواہیں ہیں کہ ہر دو منٹ بعد گرما گرم کیک کی مانند بازار میں آ رہی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہیں۔ کوئی ایک بڑے بزنس ٹائیکون کا نام بقیہ رقم کے لیے بطور ضامن لے رہا ہے اور کوئی عرب ممالک سے ضمانتوں کی خبریں لا رہا ہے۔ کوئی رات کے اندھیرے میں میاں شہباز شریف کی راولپنڈی یاترا کی خبر سنا رہا ہے‘ تو کوئی میاں صاحب کے آئندہ سیاست سے تائب ہونے اور مریم نواز کے اگلے دس سال کے لیے دستبرداری کی نہایت ”پُر یقین‘‘ خبر سنانے پر مصر ہے۔ اصل حقیقت کیا ہے؟ میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ شاہ جی! یہ میاں صاحب کے جیل سے باہر آنے کا کیا قصہ ہے اور ان کی ملک سے متوقع روانگی کی کیا سٹوری ہے؟ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے؛ نہ کوئی سٹوری ہے اور نہ کوئی کہانی ہے۔ نہ کوئی ڈیل ہے اور نہ کوئی ڈھیل ہے۔ نہ پیسے ملے ہیں اور نہ کوئی امید ہے۔ سب کچھ بالکل مفتا مفت ہو رہا ہے۔ نہ ہینگ لگی ہے اور نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا چڑھ رہا ہے۔میں نے کہا؛ یہ سب کچھ مفتا مفت کیسے ہو رہا ہے؟ شاہ جی کہنے لگے؛ میاں نواز شریف واقعتاً اور شدید بیمار ہیں۔ سرکاری ڈاکٹروں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے اور معاملہ جب ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو سرکار کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔عدالتوں نے میاں صاحب کی زندگی کی گارنٹی مانگی تو سب نے فٹا فٹ سے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ احتساب کا ادارہ اپنی ذمہ داری کسی اور کے کندھوں پر ڈالنا چاہتا ہے۔ ایف آئی اے اپنی جان چھڑوانے کے چکر میں ہے۔ عدالتوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ کابینہ اپنے سر کچھ لینے کیلئے تیار نہیں۔ ہر مصیبت، گارنٹی اور وزن کا رخ صرف عمران خان کی جانب تھا‘ انہیں کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ عام آدمی کی میت بھی کم از کم چار آدمی اٹھاتے ہیں۔ آپ اکیلے اتنی وزنی میت اٹھاتے اٹھاتے خود فارغ ہو جائو گے اور یہ جتنے بھی بلند بانگ دعوے کرنے والے تمہارے ارد گرد کھڑے ہیں ‘ویسے ہی پارٹی بدل لیں گے‘ جیسے انہوں نے مسلم لیگ( ن) سے( ق) لیگ میں چھلانگ لگائی تھی‘ پھر( ق) لیگ سے( ن) لیگ میں جمپ لگا لیا تھا اور پھر وہ تمہاری پارٹی میں کود پڑے۔ انہیں مناسب وقت پر مناسب چھلانگیں لگانے کا تجربہ ہے۔ تم پلٹ کر دیکھو گے تو پیچھے میدان خالی ملے گا۔ سو‘ عمران خان نے ایک یُوٹرن اور لے لیا ہے۔ انہیں بھی اس کام کا کافی تجربہ ہو گیا ہے۔