تحریر : ممتاز امیر رانجھا
٭ افطاری کا ٹی وی پروگرام ( میل اینڈ فی میل اینکر پرسن)
سب سے پہلے فی میل نے بولنا شروع کر دیا،”پروگرام شروع ہو گیا ہے۔سب سے پہلے مقابلہ ہے سوالات جوابات ہے جیتنے والے کو کار،موٹر سائیکل یا لوٹا انعام میں دیا جائے گا۔ سر سوال ذرا آسان کرنا آج پروگرام میں میرے پڑوسی بھی آئے ہوئے ہیں”
میل : ”ہاں جی پہلا سوا ل ہے کہ سب سے کرپٹ سیاستدان کونسا ہے۔
نواز شریف زرداری پرویز اشرف طاہر القادری
جواب آتا ہے ۔ ”چاروں”
فی میل: ”چاروں کیسے؟”
جناب چاروں اس لئے کہ نواز شریف ترقی کے کام بہت کراتا ہے لیکن اس کے ہر کام میں سریہ سیمینٹ بھی استعمال ہوتا ہے۔لوگ اسے کو پھر ووٹ دے دیتے ہیں سمجھ نہیں آتی اس کے پاس کیا چیز ہے۔اس کے بعد زرداری بھی کرپٹ ہے یہ اپنی حکومت میں مال اکٹھا کرتا ہے اور پھر حکومت سے باہر رہ کر عیاشی کرتا ہے۔ گوجر خان کا پرویز اشرف بھی کرپٹ ہے ،اس نے رینٹل بجلی گھروں پر اتنا کمایا کہ اب واپڈا والے بھی اسے رینٹ دیتے ہیں اور طاہرالقادری اس لئے کہ یہ ہر سال کینڈا سے پاکستان آکر رمضان میں زکوٰة لے لیتا ہے اور عید قربان پر کھالیں لیکر پھربندے مروا کرخود کینڈا رفو چکر ہو جا تا ہے۔
میل: چلیں جی ان کو” لوٹا” دے دیا جائے کیونکہ انہوں نے کسی خاص سیاسی پارٹی پر الزام نہیںلگایا۔
خدارا مجھے لوٹا ہر گز نہ دیا جائے۔میرے گھر لوٹے بہت ہیں،ہو سکے تو آپ کا پڑوسی ہوں مجھے موٹر سائیکل ہی انعام دے دیں آپ کو روز لفٹ دیا کروں گا۔
فی میل: ٹھیک ہے ٹھیک ہے موٹر سائیکل ہی لے جائو۔اس میں پٹرول اپنے پیسوں کا ہی ڈلوانا۔مگر خبردار میں لفٹ لینے والی نہیں ہوں۔کچھ نقد ہوں تو گھر دے جانا۔بھوکا کہیں کا۔
٭ ریڈیو پروگرام
بہنوں اور بھائیو آپ کو نغمانہ پیاری کا سلام قبول ہو۔
آج پہلا روزہ ہے،آپ سب کو رمضان مبارک ہو۔اس رمضان میں گرمی بہت ہے۔آج میں بڑی مشکل سے ناشتہ کرکے ریڈیو پروگرام میں پہنچی ہوں۔مجھے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں۔آج میری کا روزہ تھا انہوں نے صبح آٹھ بجے بڑی منتوں سماجتوں کے بعد مجھے ناشتہ دیا۔پھر ریڈیو کے باہر والی بیکری سے گرما گرم پانی ملا۔وہ کہہ رہا تھا آج لوڈشیڈنگ کی وجہ سے فریج نہیں چلا۔کیا کروں جیسے ہی پروگرام ختم ہو میں جا کے فریج سے پانی ڈھونڈتی ہوں۔
ہاں تو باتیں چلتی رہیں گے۔آپ ذرا گانا سنیں اور میں اس پر ٹھمکا لگالوں۔
بلو ذرا ٹھمکا لگا
”گانا ختم ہو گیا”
بہنوں اور بھائیو۔آپ سے معذرت میں بچپن سے ہی نعتیں اور قوالیاں نہیں سنتی۔اس لئے آج آپکو پہلے روزے پر میرے ساتھ گانے ہی سننا پڑیں گے۔کل سے کوشش کروں گی ہر روز کم ازکم ایک نعت اور ایک قوالی پروگرام میں ضرور شامل ہو۔کل سے مجھے فریج سے ٹھنڈا پانی بھی ملے اور میرا موڈ بھی ذرا مذہبی ہو جائے گا۔
٭ دال مہنگی ہے تو عوام مرغی کھائیں۔ اسحٰق ڈار
عوام کے کھانے کو تو دال ہی ہے۔تھوڑی سی شوربے والی پکا لیں اور ڈھیر سارے ملک کر کھالیں۔آپ نے دال بھی چھین لی۔بھائی جان مرغی کونسی سستی ملتی ہے۔مرغی بھی تو بڑی مہنگی ہے۔آپ نے اب عوام کے لئے دھکے ہی رکھ دیئے ہیں۔عوام دھکے کھاتی جائے اورآپ اپنا بجٹ بناتے جائو۔شیخ رشید شادی کریں یا نہ کریں۔اس مہنگائی میں شادی خدانخواستہ رنڈوے ضرور ہو جائیں گے۔صاف ظاہر ہے وہ اگر کچھ گھر نہیں لیجائیں گے تو ان کے بیوی بچے انہیں گھر سے نکال باہر کریں گے۔
٭ لگتا ہے وزارت داخلہ کو ایان علی سے پیار ہو گیا ہے۔ حافظ حمد اللہ
حافظ صاحب۔کیوں شرارتیں کرتے ہیں۔ایان علی سے کوئی پاگل ہی پیار کر سکتا ہے۔اس پر قتل کا
کیس بنتا ہے۔اس لئے اسے روکا گیا ہے۔پیار تو آپ کو ہو گیا ہے۔یا آپ سے ماروی سرمد کو پیار ہو گیا۔آپ دونوں ہی ٹی وی ٹاک شوز میں پیار بھری لڑائیاں کرتے ہیں۔اب ہم کیا کہیں کہ پیار آپ کو ہوا ہے یا وزارتِ داخلہ کو۔آج کل کے مذہبی لوگوں کو نجانے کیا ہو گیا ہے۔مولانا عبد القوی کو ہی دیکھیں اس کو قندیل بلوچ نے ایسے پھنسایا ہے کہ اب بیچارہ قندیل بلوچ کے علاوہ کسی اور کو دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہا۔اب سنا ہے وہ عید کا چاند تو کیا اپنی بیگم کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔
٭ جب تک حکمران رہیں گے لاشیں اٹھتی رہیں گی۔ طاہر القادری
جناب تسی ”کم چُک کے رکھنا” ہمارا مطلب ہے کہ آپ نے اگر ایسے ہی ڈرامائی دھرنے جاری رکھے تو نجانے کتنے بیگناہ مریں گے۔نجانے کتنے لوگوں کو لاشیں اٹھیں گی۔ان حکمرانوں کو گھر بیجنے کے چکر میں آپ کی سیاست بلند ہو گی لیکن غریب عوام تو بیگنا ہ قربان ہوگی۔
٭ قائم علی شاہ نے لگار تین گھنٹے تقریر کی۔ خبر
83سالہ قائم علی شاہ نے بولنے کا ریکارڈ تو قائم کیا لیکن بطور ناکام وزیراعلیٰ بھی انہوں نے پاکستان کے ناکام ترین وزیراعلیٰ ہونے کا ریکارڈ بھی قائم کر لیا ہے۔گزشتہ روز نامور امجد صابری کا ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونا اور پھر قاتلوں کا گرفتار نہ ہونا بھی ان کی ناکامی کی ایک بڑی مثال ہے۔عوام رہے نہ رہے سائیں صاحب کی وزارت قائم رہے۔سائیں تو سائیں کی ادائیں بھی سائیں۔ویسے بھی اسمبلیوں میں انسان کم ہیںٹریکٹر ٹرالیاں زیادہ ہو گئی ہیں۔
تحریر : ممتاز امیر رانجھا