تحریر : عماد ظفر
فحاشی عریانی اور سیکس کے متعلق آگاہی میں کیا فرق ہے اور اس کی کتنی اہمیت ہے بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے فہم ہی نہیں.ہم آج بھی سیکس جو کہ انسان کی بنیادی جبلتوں میں سے ایک ہے اس پر بات کرنا پسند نہیں کرتے اور نتیجتا ایڈز اور دیگر جنسی بیماریوں سے لیکر بے بہا آبادی کا سنگین مسئلہ نظر انداز ہوتا رہتا ہے۔
حال ہی میں پیمرا نے الیکٹرانک میڈیا پر محفوظ جنسی میل جول اور افزائش نسل کو کنٹرول کرنے والے اشتہارات جن میں کہ “کنڈوم” سے متعلق آگاہی دی جاتی تھی ان کو پابندی کا نشانہ بنا کر ٹی وی اور ریڈیو چینلز کو ایسے اشتہارات چلانے سے منع کر دیا. پیمرا کا ادارہ صارفین کی شکایات پر اس قسم کے ایکشن لیتا ہے اور اس معاملے پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا.جہاں پیمرا کو لاتعداد شکایات عام شہریوں کی جانب سے موصول ہوئیں کہ “کنڈوم” کے اشتہارات فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جانے میں قباحت ہے اور خصوصا بچے پھر اس بارے میں سوالات کرتے ہیں. یوں ایک بار پھر ہمارے “باحیا” اور “غیرت مند” خواتین و حضرات نے معاشرے سے عریانی اور فحاشی کا خاتمہ کر دیا.اور دوسری جانب آبادی میں بے پناہ اضافے کی جانب ایک اور قدم بڑھا دیا. پاکستان میں آبادی کے اضافے کی شرح 1.8 فیصد سالانہ ہے اور اگر اسی رفتار سے آبادی بڑھتی رہی تو عنقریب پاکستان کی آبادی 24 کڑوڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی اور یوں آبادی کے اعتبار سے پاکستان انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا مسلمان ملک بن جائے گا۔
لیکن ایسا ملک جس کے وسائل اس بے بہا آبادی کے سیلاب کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ناکافی ہوں گے.یوں 2030 میں بھی ہم ترقی پذیر اور پسماندہ ملک کے طور پر جانے جائیں گے. اسی طرح اس وقت پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 94 ہزار کے لگ بھگ ہے اور جنوبی ایشیا میں ایڈز سے متاثرہ ممالک کے حوالے سے ہم دوسرے نمبر پر آتے ہیں.ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایڈز پھیلنے کی ایک بڑی وجہ غیر محفوظ جنسی روابط یعنی کنڈوم کا استعمال نہ کرنا ہے. پاکستان دنیا کی ان پسماندہ اقوام میں سر فہرست ہے جہاں بنیادی جبلیات پر بات کرنا آج بھی ایک گناہ تصور ہوتا ہے. ہماری آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ بچوں کو ہارمونل چینج بلوغت یا سیکس سے متعلق کوئی آگاہی نہیں دیتا. فیملی پلاننگ کے طریقوں پر بات کرنا آج بھی پاکستان میں معیوب سمجھا جاتا ہے اور “غیرت بریگیڈ” تو فیملی پلاننگ کو بھی کامیابی کے ساتھ یہود و نصارا کی سازش قرار دے چکی ہے۔
کنڈوم کے اشتہارات پوری دنیا میں دکھائے جاتے ہیں سیکس سے آگاہی اور فیملی پلاننگ بھی پوری دنیا میں الیکٹرانک میڈیا کے زریعے بھی دی جاتی ہے لیکن ان اشتہارات کے بارے میں ایسے بھونڈے اور غیر منطقی اعتراضات صرف ہمارے معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں. خاندان کے ساتھ بچوں ہا بچیوں کی موجودگی میں فیملی پلاننگ کے اشتہارات دیکھنے کو قابل اعتراض کہنے والے خواتین و حضرات یقینا سائینس خصوصا بایولوجی سے بھی سخت بغض رکھتے ہوں گے کہ اس میں انسان کے جسم کے اعضائے مخصوصہ کا ذکر آتا ہے تو پھر بائیولوجی پڑھانا بھی ختم کر دینا چائیے. اسی طرح فلموں میں پیار محبت کے سین بھی بچوں کے ذہنوں میں کئی سوالات کھڑے کرتے ہوں گے تو کیوں نہ فلموں کی نمائش پر بھی مکمل پابندی لگا دی جائے. سپر مین کا کارٹون اور کیریکٹر چڈی میں ملبوس ہوتا ہے اب تو اسے بھی پابندی کا شکار کر دینا چاھیے۔
ویسے حوروں کے خدوخال بیان کرتے شہوانی لذتوں فوارے بیانات کیا ایسے افراد کو کھٹکتے نہیں؟ ہمارے وطن میں بچے روز جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور سیکس سے آگاہی نہ ہونے اور جسمانی تعلقات کی نوعیت یا ان کو نہ جاننا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے.انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنا یا پورن فلمیں دیکھنا بھی اسی لاعلمی کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ہم فحش مواد سرچ کرنے اور دیکھنے والے ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر ہیں.دوسری جانب پاکستان میں قریب ایک تہائی خواتین کو دوران زچگی بنیادی میڈیکل سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں.اور جن بیچاریوں کو یہ بمشکل نصیب بھی ہوں تو بھی برائے نام ہی ہوتی ہیں.ایسے میں فیملی پلاننگ کا نہ ہونا اور ایک کے بعد ایک بچے کی پیدائش ہمارے یہاں 60 فیصد کے قریب خواتین کو مختلف بیماریوں اور جسمانی کمزوریوں میں مبتلا کر دیتی ہے. اسی طرح جسمانی میل جول کیلئے سیکس ورکرز سے استفادہ کرنے والے حضرات بھی احتیاطی تدابیر نہ ختیار کرنے کے باعث ایڈز اور دوسری مہلک جنسی بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔
ہم ان مسئلوں کے حل کی جانب بڑھنے کے بجائے ان پر بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں حالانکہ ٹھیک جیسے کہ قدرت نے ہمیں آنکھ کان ناک ہاتھ یا دیگر اعضا بخشے ہیں ویسے ہی اعضائے مخصوصہ بھی اور اگر ہم باقی جسم کے حصوں کی بیماریوں اور ان کے علاج کی بات کر سکتے ہیں تو پھر اعضائے مخصوصہ یا جنسی عمل سے پھیلنے والی پیچیدگیوں کے بارے میں کیوں نہیں؟ ہمارے معاشرے میں ہم جنس پرستی بھی عام ہے اور جسمانی میل جول بھی .ہمارے بات نہ کرنے سے یہ عمل رک نہیں جائے گا بلکہ اس پر بات نہ کرنے سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہی رہیں گی. دوسری جانب فیملی پلاننگ کو معیوب قرار دینے والوں کی سوچ کے تدارک کی بھی شدید ضرورت ہے کہ انسان اور جانور میں فرق سوچ اور سمجھ بوجھ کا ہی ہوتا ہے.یہ سوچ بھی اپنی طرز میں انتہا پسندی کے زمرے میں آتی ہے۔
یہ ایک ایسی انتہا پسندی ہے جو عورت کو بچے پیدا کرنے والی مشین یا پھر جنسی لزت کا سامان سمجھتے ہوئے آبادی میں بے تحاشہ اضافے کا باعث بن کر بچوں کو افلاس اور جہالت کے اندھیروں میں قید رکھتی ہے. کنڈوم ہو یا نس بندی کے طریقے یا فیملی پلاننگ کے مختلف طریقے ان کو نصاب میں شامل کرنا چائیے تا کہ بچوں کو شروع ہی سے احساس ہو کہ زندگی صرف بچے پیدا کر کے آبادی بڑھاتے رہنے کا ہی نام نہیں ہے. وہ خواتین و حضرات جنہیں دیکھنے سننے یا لکھنے میں ان اشتہارات سے کوئی مسئلہ ہے ان کی نفسیاتی کونسلنگ کر کے انہیں اس امر کا ادراک کروانے کی ضرورت ہے کہ فیملی پلاننگ یا کنڈوم کے اشتہارات سے ان کے بچوں کو آگاہی ملتی ہے. مسائل کا حل ان سے نظریں چرا کر نہیں بلکہ مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نکالا جاتا ہے۔
اسی فرسودہ اور گھٹن پر مبنی کھوکھلی سوچ نے آج تک معاشرے کو فطری تقاضوں سے روشناس کروانے کے بجائے گمراہی اور تنگ نظری کو پروان چڑھوایا ہے. ہماری اقدار اگر آج کے جدید دور کے علم و تحقیق پر مبنی معلومات اور فوائد سے متصادم ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان اقدار کو بدلنے کی ضرورت ہے.یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے جو سمجھی نہ جا سکے .جنسی معاملات میں رہنمائی اور سیکس سے متعلق آگاہی آج کی بدلتی دنیا اور گلوبل ویلیج میں ہر آنے والے بچے کا پیدائشی حق ہے اور بچوں کو ان معاملات کی آگاہی نہ دے کر ہم خود بچوں کو جاہل اور گنوار بنا رہے ہیں.اسی طرح افزائش نسل کے طریقے اپنانا نہ صرف خواتین کی صحت کی ضمانت ہے بلکہ آبادی کے بے ہنگم ہجوم کو قابو میں رکھنے میں معاون بھی۔
بڑھتی ہوئی آبادی ایک ٹائم بم کی مانند ہوتی ہے جو بلاسٹ ہونے پر ملکی وسائل کو کھا جاتی ہے اور ترقی کا خواب محض خواب ہی رہ جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ چاینہ نے ایک دور میں آبادی کی افزائش کو کنٹرول کرنے کیلیے ایک سے زائد بچے پر پابندی عائد کر دی تھی. جو آبادی کنڈوم کے اشتہارات سے سبکی محسوس کرتی ہے اس کو خواتین اور بچوں کے ہجوم کو زندگی کی بنیادی سہولیات نہ دے سکنے پر یہ سبکی محسوس کرنی چاہیے. ایسی آبادی نے لاشعوری طور پر خود ذہنوں پر جہالت کا کنڈوم پہن رکھا ہے جسے ساری دنیا دیکھ سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس کو استعمال کرنے والے نہیں. پالیسی سازوں کو چاہئے کہ اب “جہالت کا کنڈوم” پہننے والے افراد اور سوچ رکھنے والے افراد دوارے اشتہارات بنائیں۔
تحریر : عماد ظفر