تحریر: شاہ بانو میر
سالٹ رینج موٹر وے کا دس کلو میٹر کا ایریا خطرناک جہاں کچھ کچھ فاصلے پر بار بار وارننگ سائن بورڈز کے ذریعے لگائی گئی ہےـ شائد جتنے بورڈز لکھے ہوئے ہیں جن پر حدِ رفتار تحریر ہے جو درجہ بدرجہ کم سے کم ہوتی جاتی ہے جوں جوں اترائی گہری ہوتی ہےـ پاکستان اسلام آباد سے واپس گوجرانوالہ آتے ہوئے ڈرائیور نے فیملی کو مشورہ دیا کہ باجی باہر سے آئی ہے اچھا ہے ہمارا موٹر وے دیکھیں تو موٹر وے سے چلتے ہیںـ سب نے تجویز پسند کی کہ مجھے یورپ کا ایک منظر اس پاکستان میں موٹر وے کی صورت دیکھنا چاہیےـ تجزیاتی حِس عام انسان کے اندر موجود ہوتی ہے ضرورت صرف اس کو شعور دینے کی ہے پھر ہر چیز انسان کو سوچنے پر آمادہ کر دیتی ہےـ سب پہاڑوں کے مناظر اور خوبصورت موٹر وے کی جدت پسندی اور گاہے بگاہے آتی جاتی پٹرولنگ گاڑیوں میں موجود فرض شناس چست عملے کی تعریف کر رہے تھےـ
لیکن میں نے ایک بات کو نوٹ کیا کہ جہاں یہ دس کلو میٹر طویل علاقہ آیا جس قدر حفاظتی تدابیر درج تھیں اسی قدر وہاں کا ماحول سہما ہوا تھاـ کوئی ہراس تھا جسے میں گاڑی کے اندر رہ کر محسوس کر رہی تھیـ رفتار کی حد جب غالبا 50 آئی اور ڈرائیور صاحب اسکو 90 پر بھگا رہے تھے تو فرانس کی قدم قدم پر احتیاط رکھنے والی طبیعت سے مجبور ہو کر اسکو کہہ دیا کہ آپ کیوں نہیں رفتار کم کر رہے کیا آپ سامنے بورڈ پر درج ہدایت کو نہیں پڑھ رہےـ
باجی اینا ٹیم کتھے ہندا ایہہ دوجی گل ایہہ میں تے ماڑا موٹا پڑھ لینا واں پر ٹرک ڈرائیور تے بساں والے چِٹے ان پڑھ ہندے نےـ (اتنا ٹائم کہاں ہے کہ پڑھا جائے ـ دوسری بات کہ ٹرک ڈرائیور اور بس ڈرائیور سب ہی ان پڑھ ہیں ) اس کی اس بات کی تصدیق کچھ فاصلے پر موجود دو تین ٹرکوں کے مناظر نے کر دی ـ الٹے پڑے ہوئے بتا رہے کہ اس اترائی پر درج ہدایات کا استعمال نہ کرنے پر شائد بریکیں فیل ہوئیں یا کچھ اور بہر حال اس خوف کی موجودگی کی تصدیق مزید کاروں نے اور بسوں نے کر دیںـ مال کا نقصان بھی اور قیمتی جانوں کا ضیاع الگـ حکومتیں جب بھی کوئئ بڑا منصوبہ شروع کرتی ہیں تو پہلے اس سے متعلقہ کئی ٹیمیں بنتی ہیں ـ جو اس منصوبے کے مختلف پہلوؤں پر گہرے غوروخوض کے بعد اس کے منفی اور مثبت تمام نکات پر گہرے غور و خوض کے بعد اس کو منظور کرتی ہیںـ
میرے گھر کے عقب میں قریبا دو فرلانگ کا ریلوے نیو ٹریک بنایا گیاـ 2010 میں شروع ہونےوالا یہ ٹریک پل کی صورت بنایا گیا اور نجانے کس قدر تعمیراتی سامان اس میں استعمال کیا گیا کہ ہم دیکھ دیکھ کر تھک گئے مگر یہ کام کر کے نہیں تھکے ـ پرسکون کام ایک مرحلہ طے ہونے پر دوسرا عملہ آکر اس کو او کے کرتا اور پھر وہ آگے بڑہتے ـ انہیں کسی الیکشن کی سر پے موجودگی کی فکر نہیں ہے ـ انہیں یہ پل محدود مدت میں تعمیر کر کے بے شمار نقائص کے ساتھ پبلک کیلیۓ نہیں کھولناـ جانوں کی اہمیت اور قدر کوئی ان سے پوچھے ـ اب مکمل ہوا ہے تو کئی بار اس پر بھاری سازو سامان والی ٹرین بمعہ انجنئیرز کے رات اور دن کو گزار کر ایک ایک انچ کو چیک کیا جا رہا ہےـ
یہ ہے وہ ملک جو آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں ـ یہاں کی وسیع و عریض سڑکوں کا بچھا ہوا جال پورے یورپ کو باہم مربوط کر کے تجارت کے وسیع مواقع فراہم کرتا ہے خوراک ہے یا لباس سامان آرائش ہے یا سامان تعیشآپ حیران رہ جاتے ہیں جب ہر معاشی طبقے کو نظر میں رکھ کر کم سے کم اور اعلیٰ سے اعلیٰ چیز آپکی دسترس میں ہے ـ ہر ادارہ اپنی کارکردگی کیلیۓ جوابدہ ہے ـ انفرادی اور اجتماعی کسی سطح پر آپکو جھول نظر نہی آتا ـ کوئی دباؤ کوئی سفارش یہاں کام نہی آتی ـ متعلقہ شعبے سے متعلق آپکی تعلیم اور آپکا تجربہ آپکو کامیابی کے بلند مدارج تک پہنچا دیتا ہےـ تعلیم کی بنیادی حیثیت کے حامل اس معاشرے میں کم سے کم تعلیم یافتہ فرد بھی ہر سائن بورڈ پڑھ کر اپنی جان کی حفاظت سے متعلقہ ان ہدایات کو کسی طور نظر انداز نہیں کرتا کیونکہ وہ پڑھنا جانتا ہے ـ یورپ نے سڑکوںکا جال بچھایا تو ساتھ مضبوط حکمت عملی کو اپنایا عوام کو تعلیم دی جبکہ ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ اگر حکومت نے عوام کی سوچ کی سطح بلند کرنے کیلیۓ جدت پسند منصوبے شروع کئے تو کاش دوسرا پہلو سامنے رکھ کر اس طویل مدت میں موٹر وے کو استعمال کرنے کے قوانین وضع کئے جاتے جن میں ٹریفک ہدایات اور اشاروں کا مطلب سمجھایا جاتاـ
تاکہ جو مناظر میں نے دیکھے وہ صرف جہالت کا شاخسانہ تھے وہ رونما نہ ہوتےـ ٹریفک ہدایات کو ایسے نظر انداز کرنا خطرناک علامت ہےـ حکومتِ پاکستان سے التماس ہے کہ وہ آج سے کوئی ایسا قانون وضع کرے ں کوئی ٹریننگ سیشن شروع کر کے مختصر ترین وقت میں ان ڈرائیورز کو زندگی کی اہمیت اور اس زندگی کو محفوظ کرنے کیلیۓ درج ہدایات اور سپیڈ لمٹ پڑھنے کا شعور دلایا جا سکےـ ہر شعبہ ہر ادارہ پاکستان میں اپنی موت خود مر رہا ہے وجہ یہی ہے کہ ان پڑھ لوگ رشوت سے اقرباء پروری سے اوپر آجاتے ـ سربراہ شعبے سے متعلق معلومات ہی نہیں رکھتا وہ محتاج ہے کسی اور پڑھے لکھے انسان کی بیساکھی استعمال کرنے کیلیۓـ
کسی بڑے سیاستدان نے ایک بار کہا کہ اس ملک کا سب بڑا نقصان اس کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کر رہا ہے ـ صحافی نے پوچھا وہ کیسے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ لوگ بہت زہین ہوتے ہیں جب اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتے ہیں تو ان کے پاس حساس نوعیت کے بڑے شعبے آجاتے ہیں ـ اگر تو یہ ضمیر فروش نہ ہوں تو ادارے کو بلند تعمیری انداز میں لے جائیں لیکن اکثریت اپنے عہدوں کا تعلیم کا ناجائز استعمال کر کے ملک کو اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر کے اپنی ذات کو نفع بخش بنا لیتےـ یوں یہ باس کو تو ادارے کیلیۓ اپنی بھاگ دوڑ دکھا دیتے لیکن اندر سے وہ مناپلی کر کے اس ادارے کو برباد کر رہے ہوتےـ اگر سربراہ خود اس شعبے کا اہل ہوگا تو اسکو کسی کی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑے گی وہ آزاد سوچ کے ساتھ متعلقہ ادارے سے ملک کو مضبوط کرنے کا باعث بنے گاـ بد نصیبی سے پاکستان میں بالکل الٹ نظام ہے ابھی تک باوجود تبدیلی کے نعرے کے پورا ملک ایسے ہی عہدوں کی بندر بانٹ کا شکار ہےـ
اور نااہل بگ باس کے آگے چھوٹا باس بگ باس کی مجبوری اور اس کا شاخسانہ ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہےـ جب بین القوامی سطح پر کوئی شعبہ کوئی ادارہ قابلیت کے اعتبار سے نظر نہیں آتاـ واقعی اگر پڑھے لکھے اپنا ضمیر فروخت نہ کریں
موت ضمیر کی ہو
موت ادارے کی ہو
موت عہدے کی ہو
موت فرض شناسی کی ہو
ہر موت میں جہالت کارفرما ہے
وہ تعلیمی جہالت نہیں سوچ کی جہالت بھی ہےـ
مگر نظام کی اداروں کی ضمیر کی دنیا میں ان اقسام کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ موت دراصل جہالت کا دوسرا روپ ہے اور اس ملک کو ماضی میں سچی محنت دیتے تو نجانے آج پاکستان کہاں کس کامیاب ممالک کی قطار میں ہوتا؟ اسی طرح اگر ہمارے ڈرائیور حضرات کم سے کم تعلیم حاصل کر لیں تو اتنے سارے تباہ شدہ ٹرک گزرنے والوں کیلئے خوف کا موجب نہ بنتےـ آئیے تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انفرادی سطح پر شعور کو بیدار کر کے عوام کو تعلیم کے ساتھ جوڑیں شعور کے ساتھ موٹر وے کا استعمال بزریعہ تعلیم ہی ممکن ہے اور یہی وہ شعبہ ہے جو مستقبل میں پڑھا لکھا پاکستان محفوظ مستقبلـ
تحریر: شاہ بانو میر