تحریر : ثناء سیٹھی
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں نے مختلف نیوز چینلز پر ایک خبر کی سی سی ٹی وی فوٹوز دیکھیں، ویسے توہم آئے دن ہی مختلف چینلز پر مختلف ویڈیوز دیکھتے رہتے ہیں، لیکن میرے لئے یہ اس لئے بھی اہم تھی کہ یہ میرے شہر (جوکہ تحصیل ہے مگر چونکہ کافی بڑا ہے اس لئے شہر ہی کہوں گی) چیچہ وطنی کی تھی،اس لئے دل ودماغ پرکافی اثرہوا، بہرحال ہوا یوں کہ رات کے تقریبا چار بجے ایک نجی ہسپتال کے پاس دو موٹر سائیکل سواراور تین عورتیں ایک نومولودبچی کورکھ کر فرارہوگئے،مگر کیمرے نے وہ مناظر ریکارڈکرلئے،خبرتومیں نے دیکھ لی مگر دل قلم اٹھانے پرمجبورہوگیا،اور سوچنے لگی،کہ ہم واقعی مسلمان ہیں،یا مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہیں،اس لئے ہم اسلام سے ناآشنا ہیں،
کیونکہ اگر ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ۖ کے بنائے ہوئے اسلام کے بارے میں مطالعہ کریں توپتا چلتا ہے کہ اسلام میں بیٹیوں کے کیا حقوق ہیں،اور کس طرح کفار اور مشرکین اسلام سے پہلے بیٹیوں کوزندہ دفنا دیا کرتے تھے،مگر ہمارے نبی ۖ نے کس طرح ان کواس غلط کام سے روکا،مجھے ایدھی فائونڈیشن سے بہت ہمدردی ہے کیونکہ انہوں نے انسانیت کی خدمت کرنے میں رات دن ایک کردئیے ،عبدالستار ایدھی صاحب نے کراچی میں بہت جگہوں پر جھولے اوربستر رکھے ہوئے ہیں اور ان پر لکھا ہوا ہے،
”قتل نہ کریں جھولے میں ڈالیں ایک گناہ کرکے دوسرا گناہ کیوں مول لیتے ہو’جان اللہ کی امانت ہے” اور میں سوچتی تھی،پاکستان جیسے ملک میں بھی یہ نوبت آگئی ہے کہ ہم لوگ اپنی اولادوں کوسڑک پر،زمین،کسی کے گھر ،مسجدیا دکان کے آگے کھلے آسمان کے نیچے رکھ کر آرام سے گھر جا کے سوجاتے ہیں،اوربھول جاتے ہیں،اللہ دیکھ رہا ہے،اور جوجان جوابھی معصوم ہے مگر آخرت کے دن وہ ہمارا گریبان ضرورپکڑے گا،مگر ہم توبے حس ہوگئے ہیں کیونکہ اگر اس سے بھی ذیادہ درندگی پر اتر آئیں تو ہم جان سے مار کرپھینک دینے پر ہچکچاتے نہیں،کیسے ماں باپ مل کر محبت کیساتھ ایک ماں کو دنیا میں لانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں،اور پھر اس کو گناہ اور غیرت یا کوئی بھی مجبوری کا نام دے کر سڑک پر پھینک دیا جاتا ہے،
مگر کیوں؟،کیا وہ بچہ ہمارے ملک کے لئے یا اس معاشرے کیلئے بوجھ ہیں،کیا اس کی ساری زندگی ایک گالی ہے،کیا وہ کبھی سراٹھا کے چل سکے گا،اسے ساری زندگی اسی جگہ گزارنی پڑے گی،جہاں سے ہم اپنے بچوں کو گزرنے بھی نہیں دیتے،اور ویسے بھی ہمارے معاشرے میں ایسے بچے کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا،جس کو اپنے ماں باپ رات کی تاریکی میں پھینک جائیں،وہ بچی یا بچہ جو بھی اس عمل سے دنیا میں آئے وہ ہمیشہ حرام ہی کہلاتا ہے،مگر میری نظرمیں وہ اس گالی کا بالکل بھی حقدارنہیں،کیونکہ وہ معصوم تو اللہ کے بنائے ہوئے قدرتی نظام کے جیسے ہی پیدا ہوا ہے،مگر دنیا والوں نے اسے گالی بنا دیا،گالی توان کے والدین کو دینی چاہیئے،جواسگناہ کا موجب بنے،دنیا میں ہرجگہ ایسے بچے ہی کیوں حرام کا لفظسنتے ہیں،سزاتوان لوگوں کوملنی چاہیئے جویہ گناہ کرتے ہیں،تاکہ وہ اس دنیا میں اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت آئے ،حقیقت میں یہ جوکچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے کہیں یہ ہمارے گناہوں کی سزاتونہیں،بہرحال یہ بہت بڑا ظلم ہے،
میرا ایک پیغام ہے ان ماں باپ کے لئے جن کے بچے جوان ہیں،اور جو بلوغت کی عمرکوپہنچ گئے ہیں،اور امیدکرتی ہو ںکہ میری بات کے پیچھے جومقصدہے اس کو سمجھ سکیں،اور خدا کے لئے یہ نہ کہیں کہ ہمارے بچے تو ایسے نہیں ہیں،وہ جیسے بھی ہیں مگر ان سب سے پہلے وہ جیتے جاگتے ایک انسان ہیں،اور انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لئے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان سب چیزوں کی ضرورت آپ کے بچوں کوبھی ہوتی ہے،اسلام نے ہمیں حرام اور حلال کی تمیزسکھائی ہے،لیکن جب کسی انسان کو حلال چیزجو اس کی ضرورت ہے وہ اسے نہیں ملے گی تو یقینا وہ حرام کی طرف لپکے گا اور جب انسان حرام کی حدپار کرلے تو وہ صحیح اور غلط کی تمیز بھول جاتا ہے،اور اسے گناہ بھی گناہ نہیں لگتا،اس لئے مختصرا یہ کہ آپ والدین اپنے بچوں پر تنقیدی نظر رکھیں کہ وہ کہاں جاتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں،
ان کی شادیوں میں دیر سے کام نہ لیں،اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی بلوغت کے دور کوپہنچ گئے ہیں،توان کو شادی کے بندھن میں باندھئیے تاکہ گناہوں سے بچ سکیں،اور میری گزارش ہے سب مسلمانوں سے کہ خدارا اپنے دین کو سمجھ کر سمجھیں کیونکہ ساری برائیاں دین سے دوری کی وجہ سے ہیں،اگر ہم شادی اور نکاح کے معاملے میں احادیث پڑھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ حضرت محمد نے نکاح کے متعلق بہت سی احادیث بیان فرمائی ہیں،سب ضرورت ہے تو سچے اور پکے مسلمان بن کر اور سچے پاکستانی بن کر زندگی گزارنے کی اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے ملک سے اور اس کائنات سے گناہوں کوپاک کرنے کا زریعہ بنیں،آمین
تحریر : ثناء سیٹھی