تحریر: منظور احمد فریدی
راقم پچھلے پچیس برس سے صحافت سے منسلک ہے اور ملکی حالات پر اپنے معدود علم کے مطابق مختلف اخبارات وجرائد میں لکھتا رہا ہے علم ودانش کے اکابرین میں سے صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی پیر زادہ سید نیاز حسین قادری جیسے اہل حق کا قرب ملا جس سے شعور میں یہ سب سما گیا کہ آج صحافت کے زوال میں بھی جب صحافی طبقہ اپنی اپنی دیہاڑی لگانے اور سوائے خوشامدکے کچھ بھی لکھنے کی جرات نہیں کرتا سوائے چند ایک کے اور چند ایک تو ہر دور میں ہی اچھے رہے ہیںمگر راقم الحروف کے پائوں میں لغزش نہ آنے کی وجہ انہی بزرگوں کی تربیت اور حق گوئی ہے
اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ملک کی تاریخ گواہ ہے میاں صاحبان کی حکومت جب بھی آئی اہل دین کا تمسخر اڑایا گیا اسمبلی میں موجود نام نہاد دین کے ٹھیکے دار ملائوں نے اس بات کو بھی کیش کروا کر اپنی جانثاری کے دام بڑھا لیے جس کی زندہ مثال سانحہ ماڈل ٹائون اور مول لانا فضل الرحمن کا کردار ہے موصوف کے والد گرامی نے علی الاعلان فرمایا تھا کہ اگر پاکستان کی پ بھی بن گئی تو وہ اپنی ڈاڑھی پیشاب سے منڈوا دینگے انہیں زندگی نے ایسا کرنے کی مہلت نہ دی
شائد فضل الرحمن اس بات کو پورا کرنے کے لیے اپنے ساتھ دوسرے داڑھیوں والوں کو بھی نشانہ بنوا رہے ہیں 1997 میں اسی جوڑی کی حکومت تھی اور انکے ایک نمک حلال وزیر نے بیان داغا کہ مولوی ہمیں چودہ سو سال پیچھے لے جانا چاہتے ہیں مولوی بے چارے سن سے ہو کر رہ گئے اسوقت صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی نے الحمرا ہال لاہور میں ایک کانفرنس رکھی اور جید علماء حق کو مدعو کرکے اس وزیر کی خبر لی مول لانا صاحب اسوقت بھی تسبیح سمیت ہر دانے پہ اپنا ریٹ بتاتے رہے اب سانحہ ماڈل ٹائون ہوا تو وزراء نے جو بیانات دیے وہ آن ریکارڈ ہیں ایک تو بے گناہ لوگوں کو ناحق قتل کیا گیا اوپر پھر اہل دین کو مذاق کا نشانہ بنایا گیا ابھی چند دن پہلے پھر ایک وزیر صاحب نے فرمان جاری کیا ہے کہ مدرسے جہالت کی فیکٹریاں ہیں زیر نظر مضمون میں ہم نے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ جہالت کی فیکٹریاں مدرسے ہیں یا ہمارے وزراء کرام کا اپنا ذہن انگلش بول چال سے اتنا پراگندہ ہوچکا ہے جس سے اللہ کی لاریب کتاب قرآن کریم کا سبق پڑھنے پڑھانے والا بندہ انہیں جاہل سا لگتا ہے
اللہ کریم نے بنی نوع انسان پر اپنے بے پناہ فضل فرمائے انسان کو حیوان ناطق پیدا فرما کر تمام حیوانات پر برتری عطا فرمائی آج کی جدید ترین ٹیکنالوجیز کے پیچھے بھی انسان کا ذہن کارفرما ہے اللہ کے مشکور بندے تو اسے اللہ کریم کی طرف سے دی جانے والی نعمت سمجھ کر اور جھک جاتے ہیں مگر شیطان کا گروہ اس سے ناجائز فائدے بھی اٹھاتا ہے اور اس کے منفی اثرات سے اللہ کے نافرمانوں میں شامل ہوتا جاتا ہے مثال کے طور پر میاں برادران کی پچھلی حکومت کے وزیر کے بیان کو ہی لے لیں کہ مولوی ہمیں چودہ سو سال پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ اگر ہمیں چودہ سو سال پہلے والا معاشرہ دے دیا جائے تو بے شک ہم سے اپنی ساری نئی ایجادات واپس لے لو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا چودہ سو سال قبل جو معاشرہ آقا کریم محمد مصطفی ۖ نے تشکیل فرمایا اس میں تمھاری سائنس کی ایجاد بجلی تو نہ تھی مگر کوئی اتنا اندھا بھی نہ تھا کہ اسے سامنے مرتا ہوا انسان دکھائی نہ دے تمھاری بجلی کے جھماکوں نے آج ہمیں اتنا اندھا کردیا ہے کہ ہمارے سامنے روڈ پر ہمار ا بھائی مر رہا ہوتا ہے اور ہم برق رفتاری سے گزر جاتے ہیں بڑی بڑی یونیورسٹیاں اس معاشرہ میں نہ تھیں مگر اصحاب صفہ جیسے طالب علم جو ایک چبوترے پر رہ کر علم حاصل کرتے رہے اور پھر دنیا کے حکمران بنے تمھاری یونیورسٹیوں سے کوئی ایک ایسا لیڈر بن کے نکلا ہے تو دکھائو تم نے تو برابری کے حقوق کا غلط نعرہ لگا کر عورت کے سر سے وہ چادر بھی چھین لی جو میرے نبی ۖ نے انہیں عطا کی تعلیمی اداروں میں ناچنے والی آج اس قوم کی بھولی بیٹی کو کیا معلوم کہ اسے اللہ اور اس کے رسولۖ نے گھر کی زینت قرار دیا ہے۔
آج شیونگ کریم سے لیکر بڑی بڑی گاڑیوں کے اشتہارات کی زینت بننے والی حوا زادی کو اسمبلی میں جگہ تو تم نے دے دی مگر اسکے اصل مقام سے کہیں نیچے گرا دیا آج کوئی قندیل بلوچ بن کر قتل ہورہی ہے تو اس میں کس مدرسہ والے کا قصور ہے ؟ آج کسی بھی مدرسہ میں یونیفارم ایسی نہیں جس میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا پڑے انگلش میڈیم سکولز کی وردیاں اور سکولز میں بنے کموڈ ایسے ہیں جہاں نرسری پریپ کے طلباء بھی کھڑے ہوکر جانوروں کی طرح پیشاب کرتے ہیں جہالت اس کا نام ہے یا انگریزی نہ بولنے کا آج کے لاسلکی نظام کی بدولت ہمیں دور بیٹھے رابطہ تو دے دیا گیا مگر حقیقت میں ہم بہرے ہو چکے کہ ہمیں کسی سفید پوش حاجت مند کی فریاد سنائی نہیں دیتی اور ہم نے اپنے دینی احکامات کو بھی رسم و رواج سمجھ لیا آگے عید الاضحی آرہی ہے ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی رضا سمجھ کر قربانیاں کرینگے۔
ہم تو جانوروں کی تصاویر ابھی سے فیس بک پر ڈال کر ان لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کررہے ہیں جو استطاعت نہیں رکھتے قربانی کرکے بھی ہم نے گوشت سے اپنے ڈیپ فریزر بھرنے ہیں تو پھر ہم جاہل ہی اچھے باز آئے ہم ایسی تعلیم سے جو اندھا بہرہ اور گونگا کردے کہ ہم حق بول سکیں نہ سن سکیں اور جاہل مطلق لوگوں کو موقع دیں کہ وہ ہمارے دین کا ہمارے علامء کا اور اہل حق کا مذاق اڑاتے رہیں خدا کی قسم آج بھی اگر یہ ملک قائم ہے تو اس میں ان لوگوں ان ہستیوں کا کردار ہے جنہوں نے ابھی تک چودہ سو سال پہلے والا معاشرہ اور اسکے قوانین اپنے اوپر لاگو کیے ہوئے ہیں اور انکا ہر قدم محض اللہ کی خوشنودی اور انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے اللہ کریم ہمیں اسلام دشمن اور ملک دشمن عناصر کی ان چالوں سے محفوظ فرمائے آمین والسلام۔
تحریر: منظور احمد فریدی