تحریر: انعام الحق
جس دن سے دنیا بنی اور انسانوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اسی دن سے کھینچا تانی اور مار دھاڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔موجودہ دور میں دنیا اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ بظاہر انسان اپنی سوچ سے آگے نکل رہا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ لکڑی کے ڈنڈوں یا تلواروں سے لڑائی کرنے کی بجائے بندوق کا گھوڑا دبا نے پر انسان چند منٹوں میں مر جائے گا؟ کیا کبھی کسی نے سوچاتھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام پہنچانے کے لئے گھوڑوں پر پیغام رساں بھجوانے کی بجائے ای میل یاموبائل کے ذریعے پیغامات ایک دوسرے کو دُنیا کے کسی بھی کونے سے بیٹھ کر بھجوائے جا سکیں گے؟
کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے کے لئے قافلوں کی صورت میں کئی کئی دن سفر کرنے کی بجائے صرف چند گھنٹوں میں بغیر تھکاوٹ کے لمبے سے لمبا سفر طے کیا جا سکے گا؟ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ایک انسان کے جسم کے اندرونی اعضاء مصنوعی بنا کر ان سے کام لیا جائے گا اور وہ اعضاء بالکل صحیح کام بھی کریں گے؟ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ گاڑیاں، کیمرے، موبائل، ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ ہر انسان کی پہنچ میں ہوں گے؟
جن باتوں کا ذکر میں نے کیا ہے حقیقت میں دنیا ان سے آگے جا چکی ہے۔ لیکن ایک بات انتہائی افسوسناک ہے کہ اس قدر جدید ہونے کے باوجود اس دنیا سے لڑائی، قبضہ، اقتدار، کھینچا تانی، قتل وغارت جیسی بیماریاں ختم نہیں ہو سکیں سلطنتوں کے دور سے ملکوں کے دور اور جمہوری نظام تک پہنچ چکے ہیں لیکن ایک دوسرے پر حکمرانی کرنے کے منصوبوں سے باہر نہیں نکل سکے۔ہر ملک کسی دوسرے کے ساتھ مل کر یہ پلان بنا رہا ہے کہ اپنے دشمن کو کیسے ختم کیا جائے۔ہر کوئی چاہتا ہے کہ خود کو محفوظ کرنے کے لئے جدید سے جدید اسلحہ تیار کرے۔
ویسے تو سبھی عالمی امن کے قیام کی خاطر اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ اسلحہ کے استعمال سے پرہیز کریں گے۔لیکن آئے دن کوئی نہ کوئی ملک جدید اسلحہ اور بارودی میزائلوں کا تجربہ کر رہا ہوتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے یہ اسلحے کی اقسام یا میزائل کڑوروں روپے خرچ کرکے بھنگ گھوٹنے کے لئے تو نہیں رکھے جائیں گے۔آخر کام ایک نہ ایک دن ان کا استعمال ہوگا۔ جتنے خطرناک میزائل دنیا بنا چکی ہے اُن کے استعمال کے بعد انجام بھی اتنا ہی خطرناک ہوگا۔
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بڑے بڑے جابر اور ظالم حکمرانوں کے نام ذہن میں آتے ہیں جنہوں نے انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر روندا۔ لیکن اب یہ وہ دور نہیں کہ انسانوں کو شکست دینے کے لئے قافلے، فوجیں اور تلواریں تیار کرنی پڑیں جس طرح دنیا کے ممالک تیزی سے تفریق کی طرف بڑھ رہے ہیں اور تیسری عالمی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ جنگ سوچنے میں اتنی لمبی ہوسکتی ہے لیکن حقیقت میں اُتنی لمبی نہیں ہوگی۔
کیونکہ تیسری عالمی جنگ نہ تو بندوقوں سے لڑی جائے گی اور نہ افواج کی مدد سے، بلکہ تیسری عالمی جنگ تو صرف بٹن دبانے تک محدود ہوگی۔ تیسری عالمی جنگ تک یہ دنیا اس قدر جدید اسلحے کو جنم دے چکی ہوگی، جس کا استعمال انسانوں کو یوں روندے گا جس طرح انسان کیڑے مکوڑوں کو روندتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس وقت جدید دور سے گزر رہے ہیں لیکن ہمارے ذہنوں میں وہی صدیوں پرانی جہالت بھری ہے۔ رنگ ونسل اور مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو کاٹنے کی تیاریاں اس قدر کر رکھی ہیں جیسے بھوکے بھیڑئیے خوراک نہ ملنے پر اپنے ہی گروح میں سے کسی ایک کو کھانے کی گھات میں بیٹھے ہوں۔
تحریر: انعام الحق