تحریر : شاہ بانو میر
ہمارے ایک پرانے جاننے والے ہیں انتہائی اسلامی روایات اور گہری نگاہ رکھتے ہیں اسلامی مسائل پرـ یہاں تمام عمر انہوں نے گھر نہیں خریدا کہ سود پر رقم نہیں لے سکتا اتنی سخت وعید ہے کہ سود لینے دینے والا براہ راست اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کرے گاـ بہت سمجھداری کے ساتھ محتاط رویے اپناتے ہوئے وہ ایک ایک پینی جوڑ رہے تھے پاکستان میں گھر خرید کر اپنے بچوں کو وہاں شفٹ کرنا چاہتے تھے خُدا خُدا کر کے گھر تیار ہوا اور یہ یہاں سے وہاں چلے گئے۔
ان کی فیملی بہت خوش تھی دونوں بچّے بھیـ محض دو سال بعد ہی ان کی واپسی ہو گئی ملاقات ہوئی ان کے گھر گئے تو اہلیہ کا اترا ہوا سُتا ہوا چہرہ بچّے اداس کھانے کے دوران ذرا لہجے ہشاش بشاش ہوئے تو پتہ چلا کہ جس ملک میں رہنا خواب تھا ان کا اپنا ملکوہاں کے مہنگے علاقے میں گھر بڑی دقتوں سے پیسہ پیسہ بچا کر بنایا جب وہاں شفٹ ہوئے تو کچھ روز بعد کسی ہمسائے نے خیر خبر نہیں لی۔
تمام لوگ ہی وہاں راتوں کو جاگتے دن کو سوتےـ یہ سادہ طبیعت سمجھے کہ ہم اسلامی ذہن رکھتے ہیں اس لئے ایسا لگ رہا ہے خود سے ہی میٹھا بنا کر جب ان کے ہاں لے کر گئے تو بار بار ڈور بیل بجانے پر بھی کسی نے دروازہ نہیں کھولا ـ تو یہ دائیں والوں سے مایوس ہو کر بائیں طرف والوں کی طرف گئے طویل انتظار کے بعد وہاں سے دروازہ چِرچرانے کی آواز آئی تو دیکھا کہ سامنے ایک خاتون عجیب و غریب حلیے میں یہ تعارف کروا کے مختصر سی گفتگو کے بعد واپس آگئے۔
پھر جو کچھ روز خاموش مشاہدہ کیاتو ان کے ہوش اُڑے کہ یہ کس علاقے میں گھر لے لیا؟ قیمتی گھروں کے باہر رات ہوتے ہی پورے شہر کے امراء وزراء افسران شاہی کی قیمتی گاڑیاں تحائف سے لدی پھندی آتیں اور ان کو درسِ عبرت دے جاتیں ـ پہلے تو فرانس سے جانے کا فیصلہ بہت دشوار گزار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے جانا پھر وہاں ایسی بد دلی کہ اُس پاکستان کے سامنے یہ کافروں کا ملک غنیمت لگنے لگا ـ بہت سوچ بچار کے بعد دشمنیوں اور ممکنہ ان طاقتور ہستیوں کے بیحد طاقتور لوگوں سے بچتے ہوئے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد گھر کو فروخت کیاـ اور پہلی بار ہجرت پاکستان ہوگئی آیان علی پاکستانی تاریخ میں وہ نام جو طویل عرصہ تک سیاسی بازیگروں کی قلابازیاں یاد دلائے گا۔
پاکستانی سیاست میں غور کریں تو آپکو نظر آئے گا جو جتنا بڑا غنڈہ ہے وہ غنڈہ گردی کرتا ہے اور پھر اس کو بزور بازو سر عام نشر کرتا ہے ـ شرمندگی اور خوفِ خُدا تو جیسے سیاست سے ہم نے ہمیشہ کیلیۓ ہٹا دیا ـ آیان علی جس کو گرفتار کرنے سے رہائی ضمانت تک دو حکومتیں سابقہ اور موجودہ سر جوڑے بیٹھی رہی۔ جس طرح کراچی کے تمام راز طشت ازبام ہو گئے کہ کروڑوں کی آبادی جو علی الصبح گھروں سے اپنے اپنے معاملات کے مُطابق نکلتے مگر ان کی محنت وقت کے تعین کے حساب سے ان تک نہیں پہنچ پاتی تھی ـ کیونکہ دو بڑی سیاسی جماعتوں نے مُک مکاو کیا ہوا تھا یہی وجہ ہے۔
ایم کیو ایم ناراض ہوتی تو پی پی پی کو پسینے چھوٹ جاتے کہ سب کچھ ظاہر ہو جائے گا لہذا مفاہمت کے گھٹیا لفظ پر پھر سے ترلے مِنت کر کے بلا لیا جاتا یہاں بھی یہی ہو رہا تھا ایا علی کو بچانا اور غلط کیس داخل کرنا اور کمزور دفعات لکھوانا اس لئے ضروری تھا کہ کھُرا تو جا کر مل گیا تھا پہلے دن سے ہی بڑے سیاسی نام سے ـ کئی مہینے جیل میں مہارانیوں کی طرح رہنے والی آخر کار عید پر ضمانت منظور ہونے پر باہر آئی اور سیاسی شعبدہ بازوں نے تمام اُن لوگوں کو ایسا تمانچہ رسید کیا جو صرف پاکستان میں ممکن تھا کیونکہ یہاں ہر سیاسی جماعت غنڈہ راج پے چل رہی آیان علی کراچی جامعہ میں جا کر لیکچر دے آئیـ
طفل سے بو کیا آئے گی ماں باپ کی
دودھ ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی
تو آپ کی سرکار نے یہ میسج اُن تمام پیچ و تاب کھاتے غیور پاکستانیوں کو دے دیا آج بھی ابھی بھی ہم ہی ہیں جو چاہیں کریں جسے چاہیں عروج دیں جسے چاہیں گرا دیں مُبارک ہو نئے بنتے ہوئے پاکستان کا یہ گھٹیا گندہ اور بازاری معیار مجھے اس عورت پر لکھتے ہوئے گھِن آتی ہے جس کو سستی سوچ رکھنے والے نجانے کس طرح کہاں کہاں استعمال کرتے اور جرم کھل جانے کے خوف سے جب تک رہا نہیں کروایا سو نہیں سکے ـ سیاست کا جال ابھی تک ویسا ہی گھنا اور باریک بُنائی سے بنُا ہوا ہے جس کی تار تار کو اب سیاست کی درست اب سکھانی ہے جنرل راحیل ذرا ملاحذہ کیجئے اس جانب سیاسی غلاموں کو جو اس کو لائے اور عزت سے جامعہ پہنچا کر حفاظتی امور سر انجام دیے ان سب کی غیرت شعور تہہ خاک جا سویا ہے مُردہ ضمیر صرف ڈالر میں وصولی کرتے اور پاکستان کو بھول جاتے۔
جرنل راحیل اب ان کی سرکوبی کا ِوقت آگیاـ قیامت سے پہلے جتنے اثرات پرانی کتب بتاتی ہیں ان سب کا ظہور سامنے پے ـ منافقین کے ساتھ سب سے گندے غلیظ وہ لوگ جنہیں معاف نہیں کیا جائے گا جو بے حیائی بھی کریں گے اور لوگوں کو تن کر اکڑ کر بتائیں گے کہ ہاں ہم یہ سب کرتے ہیں ـ آج اس واقعے نے اسی بات کو تازہ کر دیا کہ قیامت سے پہلے قیامت قریب آگئی ـ کوئی ادارہ کوئی عدالت جاگے اور پوچھے اِن ظالموں سے کہ ہماری بیٹیوں کو اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے کیا تعلیم دلوا رہے ہو؟ جس کے پاس کھڑا ہونا خود کو بدبو دار کرنا ہے ـ ایسی غلیظ ہستی کو جامعہ جیسی پاکیزہ جگہہ پر مدعو کر کے اتنی عزت افزائی دے کر نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہو؟ جس ملک میں پہلے ہی ذہنی انتشار ایسا ہو کہ انجنییر اب ڈکیت اور دہشت گرف بن رہے ـ بیٹیوں کو کیا بنانا چاہ رہے ہیں یہ رزیل اور گھٹیا پست ذہنیت لوگ جلد یا بدیر انشاءاللہ صفائی ہو گی اور سامنے آئے گا قابلیت اور ہُنر سے معمور
پیارا پاکستان انشاءاللہ
تحریر : شاہ بانو میر