ایک مزدور نے بنا کر کپتان چپل
ساری قوم کو سیاستدانوں کی اوقات بتادی
(بکلم خود)
ہمارے ملک میں جہاں سیاستدانوں کو مسیحا اور گھر کے ہر فرد سے اہم سمجھا جاتا تھا۔ آج ان لوگوں نے خود کو اسی مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں ’کپتان چپل‘ پہنی جاسکتی ہے۔ کیونکہ گزشتہ کئی دھائیوں سے ہمیں کوئی مخلص بندہ نصیب ہی نہیں ہوسکا۔
کسی زمانے میں جدید امریکا کے بانی ’ابراہام لنکن‘ کو موچی کہا گیا تو اس نے بڑے فخر سے کہا کہ میرا باپ ایک ایماندار موچی تھا۔ اور اس کی بنائی ہوئی چپل کبھی کسی کو تنگ نہیں کرتی تھی۔ اور امید ہے آج بھی میرے سامنے موجود سینیٹ کے ارکان میں سے کئی افراد اس کی بنائی ہوئی چپل پہنچ چکے ہونگے اور ان کے ماں باپ اور خاندان بھی اس کی بنائی ہوئی چپل پہنتے رہے ہونگے۔ مگر کبھی میرے باپ کی بنائی ہوئی چپل نے کسی کو تنگ نہیں کیا۔ اگر کسی کو تنگ کیا ہے تو وہ مجھ سے شکایت کرسکتا ہے۔ میں اس کی شکایت دور کردوں گا۔
یہ تو ابراہام لنکن اور اس کے باپ کی بنائی ہوئی جوتیاں تھیں جو کسی کو تنگ نہیں کرتی تھیں۔ مگر ہمارے نام نہاد لیڈرز جنہیں ہم سر پر بٹھا بٹھا کر تھک چکے ہیں
مگر مجال ہے یہ لوگ کبھی اس عزت کا پاس رکھیں۔ کبھی ہمارے وسائل لوٹتے ہوئے زرا بھی شرمائے ہوں ۔ کبھی انہوں نے چوری پکڑی جانے پر یا ان کی غفلت پر ہونے والے قومی نقصان اورتباہی پر شرمندگی کا اظہا ربھی کیا ہو۔
نہیں ہمیشہ انہوں نے جس تھالی میں کھایا اس میں چھید کیا۔ ہمیشہ یہ لوگ ووٹ لے کر بھو ل گئے مدت پوری کی یا نکالے گئے۔ پھر عوام کے پاس چلے گئے۔ اور ہماری عوام سادہ لوح۔۔۔۔۔
جس نے کبھی ان سے ان کے بھول جانے کی شکایت نہ کی بلکہ ان کو پھر انسان سمجھتے ہوئے ان کی غلطیاں نظر انداز کردیں۔ یہ سمجھے انہوں نے عوام کو بیوقوف بنا لیا۔ انہوں نے اپنا وطیرہ اپنا لیا اور دھوکے پر دھوکہ دیتےگئے ۔ یہاں تکہ کہ بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں بنالیں۔ عوام نے انہیں پھر بھی کچھ نہ کہا
یہاں تک کہ ان لوگوں ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اداروں کو بھی چکمہ دینا شروع کردیا۔ جب یوں بس نہ چلا تو اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے اداروں کو بہت ہی برا بھلا کہنا شروع کردیا۔
پھر بھی بات نہ بنی تو عالمی سطح پر اداروں کیخلاف راز اگلنا شروع کردیئے۔
اب تو انتہا ہوگئی۔ اب عوام کو ‘’کپتان چپل‘‘ پہنتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ ان
سیاستدانوں کی اوقات کیا ہے
ورنہ یہ نو آموز سیاستدان جن کے نام پر چپلیں بن رہی ہیں ۔ کل کو ان کے نام پر پل بنیں گے۔ سکول بنیں گے۔ ہسپتال بنیں گے ۔ مگر یہ لوگ اپنی روش سے نہیں ہٹیں گے۔
ہمارے ہی ٹیکسوں کے پیسے سے ہمیں پل ، سڑکیں، ہسپتال بنا کر دیتے ہیں اور اپنا نام لکھوا لیتے ہیں۔ اور اپنے باپ داد کا نام یوں لکھواتے ہیں جیسے قوم کے نہیں ان کے باپ کی کمائی پل اور سڑکوں پر لگی ہو۔
آج کپتان چپل جن کے نام سے منسوب ہے آخر میں میں اپنی قوم سے اپیل کرنا چاہوں گا۔ کہ آج کپتان کا بیان انتہائی ’الارمنگ ‘‘ ہے ۔ جس میں موصوف نے آنے والے بد ترین حالات کا تذکرہ کرنا شروع کردیا ہے۔ گویا کہ اس کے پاس انتہائی گزشتہ حکومت سے ٹرینڈ لوگوں کی اکثریت ہے مگر
وہی خزانہ خالی ہونے کا رونا یہ بھی رونا شروع ہو چکا ہے۔ یہ میزانیہ ہم گزشتہ تین دھائیوں سے سنتے آرہے ہیں
مججے ووٹ دو
میں تمہاری تقدیر بدل دوں گا
جب اقتدار میں آئے
خزانہ خالی ہے
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہاں سے پکڑوں کہاں شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔۔۔۔۔۔
وما علینا الالبلاغ
والسلام
سید معارف کاظمی
blogs and columns @
www.yesurdu.com