الیکٹرانکس کے شعبے میں ہونے والی ترقی کی بدولت دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور نئی ایجادات کی وجہ سے تیز ترین ذرائع ابلاغ نے ایک طرف تو زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلاب برپا کیا ہے تو دوسری طرف کچھ مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ ان مسائل میں ایک اہم اور بڑا مسلہ الیکٹرانک فضلے کو ٹھکانے لگانے کا بھی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباً پینسٹھ ملین ٹن الیکٹرانک فضلہ پیدا ہوتا ہے جس کو ٹھکانے لگانا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ الیکٹرانکس کی دنیا میں تیزی سے ہونے والی ترقی اس اس مسئلے کی شدت میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے۔ ہر سال کم و بیش ساری بڑی کمپنیاں نت نئے اور بہتر کارکردگی والے الیکٹرانکس کے آلات متعارف کرواتی ہیں جس کی وجہ سے استعمال شدہ اور متروک آلات جس میں کمپیوٹرز اور موبائل فونز کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے کو ٹھکانے لگانا ضروری ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں سخت قوانین نافذ ہیں جن کے مطابق الیکٹرانک فضلے کو سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگانا لازم ہے۔ سائنسی طریقے سے اس فضلے کو ٹھکانے لگانے کے عمل پر ہونے والے خرچ سے بچنے کے لئے مغربی ممالک زیادہ تر فضلہ غریب ممالک میں بھیج دیتے ہیں۔
یورپی یونین کے بیشتر ممالک نے باسل کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں جس کی رو سے الیکٹرانک فضلے کو ترقی پذیر ممالک میں لے جا کر ٹھکانے لگانا غیر قانونی ہے کیوں کہ ان ممالک میں ماحول دوست طریقوں سے یہ کام سر انجام نہیں دیا جاتا۔ یوروپی یونین کے زیادہ تر ممالک اس کنونشن کی پاسداری نہیں کرتے اور نوے فیصد الیکٹرانک فضلہ تجارت کے نام پر افریقی اور ایشیائی ممالک میں بھیج دیتے ہیں۔ڈچ اخبار ون ورلڈ کے مطابق اس فضلے کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں بھی جاتا ہے۔جہاں ان آلات کی ری سائیکلنگ کی جاتی ہے۔ اس گھناؤنے کاروبار کی تکمیل کسٹم حکام مبینہ طور پر رشوت کے عوض کرتے ہیں اور الیکٹرانک فضلے کو استعمال شدہ سامان کی زمرے میں شامل کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کاروبار پر حکومت کی نظر نہیں پڑتی۔
پاکستان میں جدید سائنسی طریقوں کی عدم دستیابی، سستی مزدوری کی موجودگی اور مزدور کی کم علمی کا فائده اٹھاتے ہوئے اس الیکٹرانک فضلے کی ری سائیکلنگ روائتی طریقوں سے کی جاتی ہے جس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے بلکہ اس کام کو کرنے والے محنت کش خاص طور پر کم عمر بچے پھپھڑوں کی سنگین بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یوروپی یونین کو اس کالے دھندے کا نوٹس لے کر اس غیر قانونی تجارت کو بند کروانے اور ترقی یافتہ ممالک کو باسل کنونشن پر عمل درامند کرانے کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ حکومت پاکستان خاص طور پر وزارت تجارت کو اس پر سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس غیر قانونی کام کو یا تو بند کیا جائے اور یا اسے محفوظ اور سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے مناسب قانون سازی کی جائے۔