میں نیا نیا اس سکول کا ڈانس ٹیچر بنا تھا۔ میرے پاس بہت سے میڈل تھے اور ٹرافیوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ جب میں سکول کے گراؤنڈ میں پہنچا تو دیکھا کہ کوئی لگ بھگ سو کے قریب لڑکے لڑکیا اس دفعہ ڈانس کلاس لینے کے لیے تیار تھے۔ ان کی ہر گرمیوں میں ڈانس کلاس بھی ہوتی تھی۔ میں ان سے مخاطب ہوا، ان کو خوش آمدید بولا۔ بچوں کے نام پوچھے۔ ایسے میں ایک لڑکے پر نظر پڑی جو بالکل الگ تھلگ ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ایک بار دیکھا اور نظر انداز کر دیا۔ جب کلاس کے کچھ منٹ باقی تھے تو میری پھر اس پر نظر پڑی اور میرے سے رہا نہ گیا۔ میں اس کے پاس گیا اور بولا کہ آپ ادھر علیحدہ کیوں کھڑے ہو؟ آپ گروپ میں اوروں کے ساتھ ڈانس کی پریکٹس کیوں نہیں کر رہے ہو؟اس نے بولا کہ میں اس طرح کے کام نہیں کرتا۔ میرا پیریڈ ختم ہو گیا۔ میں اس کی بات پر مسکرایا اور چلا گیا۔ اگلے دن سب نے پھر پریکٹس شروع کی۔ میں سب کے ساتھ اتنا مصروف تھا کہ میں اس کو بھول گیا۔ آخری آدھے گھنٹے میں پھر میری نظر اس پرپڑی ۔ وہ ادھر ہی پیڑ کو چپک کر بیٹھا ہوا تھا۔ میں باقیوں کو چھوڑ کر اس کے پاس گیا اور پھر اس سے بولا کہ آجاؤشاباش۔۔شروع تو کرتے ہیں۔۔اس نے پھر جواب دیا کہ میں یہ سب نہیں کرتا ہوں۔ میں اس میں بالکل اچھا نہیں ہوں۔ مجھے اس کی بات پر ہنسی آئی۔ مجھے سمجھ آگیا کہ یہ کچھ دن کی بات نہیں اس کو اس کے خول سے باہر نکالنے میں مجھے کچھ ماہ درکار تھے۔ میں تحمل والا ٹیچر تھا میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ اس کو اس کی بے چینی سے نکالنا ہے۔ اگلے دن پھر وہی روٹین، میں نے آخری آدھا گھنٹہ اس کے لیے رکھ لیا۔ روز میں جاتا اور جا کر اس سے بار بار بولتا کہ تم شروع تو کرو۔ باقیوں جیسی مہارت تک کبھی تو پہنچو گے۔وہ روز کی وہی ضد۔ میں نے آدھے مہینے بعد اس کے سارے ٹیچروں سے بات کی کہ اس میں خود اعتمادی کی بہت کمی تھی اور سب کو مل کر اس کی مدد کرنی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ خود ہی گروپ کا حصہ بننا شروع ہو گیا۔ ایک دو بار مجھے وہ باقی لڑکے لڑکیوں میں ڈانس کی پریکٹس کرتا بھی نظر آیا۔ تین مہینے بعد میں سٹیج ریہرسل کروا رہا تھا کہ میں اسے ڈانس کرتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ سب سے نمایاں اور بہتر ڈانس کر رہا تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور اس کو ’پیرنٹس ڈے‘ کے لیے’ لیڈ رول‘ دے دیا۔ اس کے بعد مجھے اس کی فکر نہیں رہی کیونکہ وہ خود کو سنبھال لیتا تھا۔ لیکن دو مہینے بعد میں گھر پر تھا کہ میرا فون بجا۔ میں نے اٹھایا تو ایک عورت بولی کہ سر ٹام جانسن سے بات کروا دیں پلیز۔۔میں نے بولا کہ جی میں ٹام جانسن بات کر رہا ہوں۔۔آپ کون؟ ۔۔۔اس عورت نے بولا کہ سر آپ کو جیف رابرٹ یاد ہے؟ میں بھلا کیسے بھول سکتا تھا۔ میں نے فورا ً بولا ہاں وہ درخت والا لڑکا۔ اس عورت نے بولا کہ درخت والا مطلب؟ میں نے جواب دیا کہ جیف کو میں درخت والا لڑکا کہتا تھا کیونکہ شروع میں اس نے مجھے بہت تنگ کیا تھا۔ وہ عورت بولی کہ سر میں جیف کی ماں بات کر رہی ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے جیف سکول سے واپس آرہا تھا تو اس کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔میں یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہو گا۔ اس کی ماں بولی کہ سر جانسن۔۔میں نے آپ کو اس لیے فون کیا ہے کہ میرا بیٹا ہر وقت آپ کی باتیں کرتا رہتا تھا کہ کیسے آپ نے اس کی حوصلہ افزائی کر کے اس کو ہر کام میں بہتر بنا دیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اسے اب اپنی کلاس کے ساتھ وقت گزارنے میں بھی بہت مزہ آتا تھا۔ میں اس کو جب بھی سکول سے لوٹتا دیکھتی تو وہ اداس ہوتا تھا لیکن پچھلے کچھ ماہ اس کی زندگی کے بہترین مہینے تھے۔ وہ ہر روز ہنستے کھیلتے سکول سے واپس آتا تھا۔ آپ کو اس لیے فون کیا ہے کہ آپ کا شکریہ ادا کر دوں۔ آپ نے جیفکی زندگی بدل دی تھی۔ یہ کہہ کراس عورت نے فون بند کر دیا۔ میں آج تک لوگوں سے اس بات کا تذکرہ کرتا رہتا ہوں کہ جب جہاں کسی کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہو کرو کیونکہ آپ کو کیا معلوم کہ آپ کس کے لیے رحمت کا ذریعہ بن جاؤ۔