میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ہوں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ……میں آج آپ سے اس لئے مخاطب ہوں کہ کل یعنی 31مارچ کوقوم کی عفت ڈاکٹر عافیہ کی گرفتاری کے 14 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ یہ دن یوم سیاہ کے طور پر منایا جانا چاہئے۔ڈاکٹر عافیہ کو اسی روز بچوں سمیت انسانی سمگلروں کے ذریعے اغوا کر کے پہلے افغانستان پہنچایا گیا اور پھر امریکہ لے جا کر بغیر کسی جرم کے بتائے 86 سال کی بہیمانہ قید کی سزا سنا دی گئی۔اس سزا کی ساری دنیا میں مذمت ہوئی ۔عافیہ امریکہ کے قید خانے میں بے یارو مدد گار پڑی ہے۔آیئے ! اسے چھڑانے کے لئے ہم اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔جن لوگوں نے اس سلسلے میں میرا ساتھ دیا میں ان کی بہت شکر گزار ہوں۔ 30 مارچ 2017ء کی شام ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے یہ پیغام پاکستانی قوم اور اس امت مسلمہ کے نام جاری کیا جو کرہ ارض پر ہر جگہ ہی لُٹ پِٹ رہی ہے اور جو اس دہکتی بھٹی سے باہر ہیں، وہ صرف تماش بین سے زیادہ کچھ نہیں۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، پاکستان کی ایک لائق فائق نیورو ڈاکٹر اپنی بہن کی رہائی کے لئے اپنا سارا کیرئیر اور ساری زندگی دائو پر لگا چکی ہیں۔وہ قریہ قریہ، شہر شہر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا آوازہ بلند کرنے نکلی رہتی ہیں۔ ماں پیرانہ سالی اور علالت کے باعث بستر سے اٹھنے سے قاصر ہے۔
ایک ہی بھائی ہے جو ڈاکٹر ہے اور اسی کی کمائی سے گھر کا سارا نظام زندگی چلتا ہے۔ چند روز پہلے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی لاہور پہنچی تھیں جہاں انہوں نے پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی آج تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں امریکیوں کا آنا جانا بالکل کھلا ہوا تھا اور جو امریکی جب چاہتا آتا جاتا تھا تو اب انہیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہئے کہ ڈاکٹر عافیہ کو جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر سزا دلوانے کا’ کارنامہ’ بھی انہوں نے انجام دیا تھا۔چھوٹی بہن کی رہائی کے لئے سب کچھ لگا دینے والی ڈاکٹر فوزیہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے کو آتے تو وہ اپنی گفتگو روک کر پہلے آنسو روکتیں اور پھر بات شروع کرتیں۔وہ کہہ رہی تھیں ، میری بہن پرکبھی کیمیائی تو کبھی طبیعاتی ہتھیاروں کی تیاری کا الزام عائد کیا گیا حالانکہ وہ تو نیورو سائنسز میں پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر تھی۔وہ تو جنرل ڈاکٹر بھی نہیں تھی کہ اس کے بارے یہ کہا جا سکے کہ وہ میدان جنگ کے زخمیوںکا علاج کر سکتی ہے۔اس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ پاکستانی نہیں، امریکی شہری ہے اور امریکی ہونے کی وجہ سے پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس کا قضیہ نہیں اچھالنا چاہئے، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ پاکستانی شہری ہے اور اس نے امریکہ جانے کے لئے سٹوڈنٹ ویزا لیا تھااور اب بھی اس کے پاسپورٹ پر وہی مہر لگی ہے۔(اللہ کی شان دیکھئے۔
گزشتہ حکومت کی ایک نامی گرامی بی بی جو عافیہ کے قضیئے سے جان چھڑانے کے اس مشن پر متعین تھی کہ وہ ہر جگہ یہی ثابت کرے ، عافیہ سے ہمارا کیا لینا دینا، وہ توامریکی شہری ہے،وہ بی بی کب کی قبر میں اتر چکی لیکن عافیہ فرعون زمانہ کے بدترین عقوبت خانوں میںتن تنہا رہ کر بھی زندہ و تابندہ ہے)پھر کہا گیا کہ اس نے افغانستان جا کر دوسری شادی کر لی تھی ،یہ بھی سراسر جھوٹ ہے کیونکہ اس کا تو پہلا نکاح بھی موجود تھا اور نہ اس نے خاوند سے خلع لیا تھا اور نہ اس نے طلاق دی تھی۔اگر ایسا ہوتا تو مخالفین کب کا وہ سب میڈیا کو دکھا چکے ہوتے ۔مجھے ایک امریکی کہنے لگا ،آپ مسلمان تو چا ر چار شادیاں کرتے ہیں ،تو میں نے کہا اسلام میںایک سے زائد شادی کی اجازت مسلمان مر د کو ہے ،عورت کو نہیں۔ڈاکٹر فوزیہ نے سانس لیا، پھر بولیں، میں آپ کو ایک اچھی خبر بھی سنانا چاہتی ہوں اور وہ یہ کہ ہمارے خاندان کی ایک خاتون حال ہی میں عافیہ کو جیل میں مل کر آئی ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے، عافیہ جیل میں اب بھی کافی پر امید ہے کہ اس کی رہائی کی تحریک بالآخر رنگ لائے گی اور مسلم امہ کی کوششوں سے وہ ضرور باہر آئے گی۔اسی امید پر وہ زندہ ہے اور بخیریت ہے۔
عافیہ کے قضیئے سے جان چھڑانے والوں کا یہ حا ل ہے لیکن یوں جان چھوٹنے والی نہیں۔وہیں بیٹھے تحریک انصاف کے آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن محی الدین دیوان کہنے لگے، 14سال تو عمر قید ہوتی ہے ،اگر قتل کا مقدمہ ہو، امریکی قانون ہو، تب بھی عافیہ کو رہا ہو جانا چایئے۔افسوس اس پر مقدمہ بھی ایسا کوئی نہیں اور رہائی بھی نہیں۔ یہیں بتایا گیا غدار وطن شکیل آفریدی کی مئی میں رہائی اور امریکہ حوالگی عین ممکن ہے لیکن عافیہ کی رہائی کی کوئی کہیں بات ہی کرنے پر تیار نہیں۔ جناب نوازشریف نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے سے پہلے عافیہ صدیقی کی والدہ سے ملاقات کی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ وہ جیسے ہی وزیر اعظم بنیں گے،عافیہ کو رہا ئی دلائیں گے،لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا ۔ان سے پہلے کی حکومت میں ایک مرحلہ ایسا بھی آگیا تھا کہ یہ مسئلہ فوری طور پر حل ہوسکتا تھا ،جب ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسکی رہائی کیلئے پوری امریکی انتظامیہ و مقننہ گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ اگر اس وقت ریمنڈ ڈیوس کی رہائی عافیہ کے تبادلے سے مشروط کی جاتی تو عافیہ کی واپسی اسی وقت ممکن تھی لیکن یہاں موجود امریکی غلاموں نے مسئلے کا یوں حل نکلنے ہی نہ دیا اوراس وقت امریکہ کے ساتھ تحویل مجرمان کا سمجھوتہ ہوچکا ہے تو حکومت پاکستان کے پاس کوئی بہانہ باقی نہیں رہا کہ وہ عافیہ نہ لاسکے۔ اس حوالے سے عافیہ کی وطن حوالگی حکومت کی محض رسمی درخواست پہ منحصر ہے۔
عالم اسلام کی ایک سب سے پڑھی لکھی ،حافظہ قرآن ،عالمہ دین خاتون جو پاکستان کو لا الہ الا اللہ کی منزل پر دیکھنا چاہتی تھی اور جسے امریکی غلامی پسند نہ تھی، اب قید تنہائی کاٹ رہی ہے۔عافیہ کے بارے میں سہراب خان نامی قیدی جس نے بگرام میں خود اپنی آنکھوں سے کچھ احوال دیکھا تھا ،بیان کرتے ہوئے بتایا تھا۔2005ء میں امریکہ سے کچھ فوجی بگرام جیل آئے جو عافیہ صدیقی کو ہیلی کاپٹر پر کہیں لے گئے تین دن بعد جب اسے واپس لایا گیا تو وہ اسٹریچر پر تھی۔ ہمیں پتا چلا کہ اس کو کراچی سے آگے کھلے بین الاقوامی سمندر میں کھڑے امریکن بیڑے پر لے جایا گیا تھا جہاں معلوما ت لینے کے لئے اس پر بدترین تشدد کیا گیا، رات کے سناٹے میں اس کی دردناک چیخیں سن کر سارے قیدی روتے تھے۔ بگرام میںایک دفعہ عافیہ بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کر رہی تھی، ایک امریکی فوجی عورت نے منع کیا لیکن اس نے تلاوت جاری رکھی، غصے میں آکر فوجی عورت نے عافیہ صدیقی کو ایک کرسی پر بٹھا کر ہاتھ پیچھے باندھ دیئے اور عافیہ کا منہ زبردستی کھول کر شراب ڈا ل دی ، اس فوجی عورت کی شرمناک حرکت پر سب قیدیوں نے شام کے کھانے کی ہڑتال کر دی۔ جب جیل کے سینئر افسر کو پتا چلا تو اس نے فوجی عورت کا تبادلہ کر دیا۔جنوری کی سخت سردی میں ایک دن صبح سویرے عافیہ صدیقی کو جیل کی گراؤنڈ میں لایا گیا۔عافیہ نے قیدیوں والی پتلی وردی پہنی ہوئی تھی اور پاؤں ننگے تھے جن میں زنجیریں تھیں۔ سردی سے ہم بھی ٹھٹھر رہے تھے ،ہمارے سامنے دو امریکیوں نے ٹھنڈے پانی کی بالٹیاں عافیہ پر الٹ دیں، جس سے اس کی کرب ناک چیخیں نکلیں، پھر ایک فوجی نے کمر پر بندوق کا بٹ مار تے ہوئے میدان کاچکر لگانے کا حکم دیا۔وہ مشکل سے کھڑی ہو کر دو قدم چلی توزنجیروں کی وجہ سے گر گئی،اس دن دو گھنٹے ظالم امریکی وحشی درندے یہ کچھ کرتے رہے اور ہم سب بے بسی سے یہ منظر دیکھتے رہے۔
بے پناہ دولت ،جدید ترین اسلحہ اور جابر فوج کے باوجود امریکہ کی شکست کی یہی وجہ ہے کہ اس نے تاریخ کا بدترین ظلم ڈھایا۔ظلم تو پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، لیکن امت کے لوگوں کی جانے وہ غیرت کہاں چلی گئی جس سے ایک مسلمان خاتون کی آواز پر سمندوں صحرائوں کو چیر کر دشمن کو تہ تیغ کر دیتے تھے اور سارا جہاں ان کی عزت کرتا تھا۔آج ہر جگہ بکھری ذلت کیا ہر گھر پہنچے گی،تب امت جاگے گی؟۔