لاہور (ویب ڈیسک) عمران خان کیا کرتے ہیں؟ وزراء کو وہ کوستے ہیں اور کبھی کبھی خود کو بھی کہ کن لوگوں سے واسطہ آن پڑا ہے۔ خود فریبی ہے خود فریبی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ازراہ کرم کل میرے ہاں تشریف لائے۔ دل ہے‘ کبھی بجھ جاتا ہے۔ اسلام آباد میں ہوں تو عارف سے ملنے جاتا ہوں۔ نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لاہور میں ہوں تو ڈاکٹر صاحب کو فون کرتا ہوں۔ وہ ہرشخص کے پڑوسی اور ہر آدمی کے دوست ہیں۔ مایوسی دُھل جاتی ہے۔ دل کی بستی اجاگر ہوتی ہے‘ جس طرح بارش کے بعد‘ فضا کی پاکیزگی۔زندگی پہ اعتبار آنے لگتا ہے‘ حتیٰ کہ خود پہ بھی۔اصحابِ رسول نے‘ سیدنا ابو بکر صدیقؓ‘ جن میں شامل تھے‘ ایک بار سرکارؐ سے عرض کیا تھا: آپ کی محفل میں ہوں تو جنت اور جہنم سامنے دکھائی دیتے ہیں۔ اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو دل کی دنیا بدلنے لگتی ہے۔ فرمایا: ایک سانس دنیا کے ساتھ ہے اور ایک دین کے ساتھ۔ اگر تم ویسے ہی رہتے‘ جیسے کہ میری محفل میں ہوتے ہو تو مدینہ کی گلیوں میں فرشتے اتر آتے اور تم سے مصافحہ کرتے۔ زندگی کے کچھ لازمی تقاضے ہیں۔ با معنی مصروفیت‘ خورو نوش‘ نیند اور رفاقت… ان کی رفاقت دل‘ جن کے سامنے کھول کر رکھا جائے۔ احساسات میں جنہیں شریک کیا جائے۔ آدمی ایک سماجی حیوان ہے۔ خواجہ نظام الدین اولیاؒء نے کہا تھا: بروں کی صحبت‘ برائی سے بھی بدتر ہے اور نیکوں کی صحبت ‘ نیکی سے بھی بہتر۔ غور کیجئے تو معانی کے ہزار جہان روشن ہوں۔ اس قدر زندگی برق رفتار ہو گئی کہ خود سے آدمی کی ملاقات نہیں ہوتی۔ کچھ وقت فرائض منصبی کی نذر ہوا‘ اس سے زیادہ غیبت کی۔ باقی مصنوعی زندگی کے مصنوعی تقاضے نبھانے ہیں۔ ہفتے کی صبح ایک نوجوان برطانیہ سے آیا۔ بینک کی نوکری۔ روح مگر بے چین ہے۔ کہا: خود لندن میں رہتا ہوں مگر دل پاکستان میں۔ اپنے وطن کے لیے جی کڑھتا ہے۔ علما ء دین اور شیوخ سے ملتا رہا۔ ان سے مایوس تھا۔ سبھی ہو جاتے ہیں‘ جو قریب سے انہیں دیکھتے ہوں۔ ایک منصوبے کے خدوخال اس نے بیان کرنا شروع کیے۔ اہلِ خیر کے تعاون سے تعلیمی ادارے بنائے جائیں‘ بے شمار۔ سطحی تدریس کی بجائے‘ فنی تعلیم دی جائے۔ آغاز ہی سے ایسی تربیت کہ رفتہ رفتہ وہ موبائل فون‘ کمپیوٹر‘ ٹیلی ویژن اور دوسرے جدید آلات بنا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی دینی تعلیم کا اہتمام۔ وہ خود کو سمجھ سکیں‘ اپنی عصری دنیا کو‘ زندگی اور کائنات کو۔ صوفی و ملّا سے نجات پا سکیں۔ مسلمان ہوں لیکن مغرب کے اندھے مقلّد نہیں۔سپنوں سے دنیا نہیں بدلتی۔ ترجیحات طے کرنا ہوتی ہیں۔یہ صرف علم ہے جو راہ دکھا سکتا ہے‘ منور کر سکتا ہے۔ ہر عظیم جدوجہد کا آغاز پہلے قدم سے ہوتا ہے۔ ذرّہ بھر خلوص بھی مالک ضائع نہیں کرتا۔ وہ عظیم انقلابی جو منہ کے بل گرتے ہیں اور ان کی برپا کردہ تحریکیں بھی‘ دراصل خلوص سے خالی ہوتے ہیں اور علم سے بھی۔
نوجوان نے بتایا کہ سات ایکڑ زمین کسی نے اسے حبّہ کی ہے۔ عرض کیا کہ کیوں نہیں‘ ایک سکول آپ تعمیر کرتے ۔ آپ کی منشا کے مطابق‘ سلیبس جس کا مختلف ہو۔ قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھیں‘ جیسا کہ خود آپ نے پڑھا ہے۔ جدید ترین عصری علوم سے فیض یاب ہوں۔ ایک طویل بحث کے بعد نیم دلی سے وہ مان گیا۔شام کو دوبارہ تشریف لائے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کو بھی زحمت دی ۔ ایک عدد یونیورسٹی‘ تین کالج اور تین سو سکول ‘ جن کی نگرانی میں کار فرما ہیں۔ دن رات برستی بارش میں فروغ پاتے پودوں کی طرح۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی اس نے ایک طویل لیکچر دیا۔ خواہش اس کی یہ تھی کہ اپنے ادارے ڈاکٹر صاحب اس کے حوالے کر دیں۔ ان کے بل پر وہ ایک انقلاب برپا کر دے۔ بے پناہ تحمل اللہ نے ڈاکٹر صاحب کو بخشا ہے۔ سمجھاتے رہے‘ بالآخر ان کی بات اس نے مان لی۔ ایک سکول کی تعمیر کا آغاز۔ مگر دل درد سے بھر گیا۔ کیسے کیسے با صلاحیت نوجوان ہیں‘ کیسے ایسے ایثار کیش۔ خاص طور پہ سمندر پار پاکستانیوں میں ۔ زندگیاں نذر کرنے پہ آمادہ مگر ان کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں۔ راہ دکھانے والا کوئی نہیں ۔ ایک طرف پرلے درجے کے بدعنوان ہیں۔ لوٹ مار میں عمریں بتا دیں ۔ دوسری طرف وہ ہے‘ ہمہ وقت جو جنون اور انتقام کا درس دیتا ہے۔ پیروکار اس کے یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ایک ہی دیانت دار آدمی ہوا ہے اور ایک ہی شہسوار۔ اوّل تو غلطی وہ کر سکتا ہی نہیں۔ اگر ہو جائے تو بھول جائو دوسری طرف ڈاکو کھڑے ہیں۔ تنقید تو دور کی بات ہے‘ مشورہ دینے کی بھی کوئی جسارت کرے تو برا مانتے ہیں۔ کچھ تو برا ہی مانتے ہیں‘ کچھ گالی بکتے ہیں اور اس پہ فخر بھی فرماتے ہیں۔ غالباً انسانی تاریخ کا یہ واحد دور ہے‘ سیاسی جماعتوں نے ‘ اس طرح کے جتھّے جب تیار کیے ہیں… اور ہرگز اس پہ وہ شرمندہ نہیں۔اتنے میں ایک ا خبار نویس آ براجے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کو انہوں نے مبارک باد دی کہ حکومت نے پانچ ارب روپے ان کی نذر کیے ہیں۔اپنی مخصوص شائستہ ہنسی وہ ہنسے اور کہا: کون سے پانچ ارب ؟ ہم سے تو کسی نے بات ہی نہیں کی۔ اگر وہ عطا کریں تو ہم شکر گزار ہوں گے۔اخبار نویس نے تعجب کا اظہار کیا تو میں نے پوچھا: وزیراعظم نے آپ کے مشورے پر‘ ادبی اداروں کے سربراہ برطرف کرنے کا حکم دیا تھا‘ اس کا کیا ہوا۔ اب ان کے ہنسنے کی باری تھی۔ قہقہہ دیر تک گونجتا رہا۔ کچھ دیر میں شیخ رشید اور فواد چوہدری والی خبر آئی۔ بارہا وزیراعظم ان سے کہہ چکے کہ اطلاعات کا قلم دان وہ سنبھال لیں” مگر میں نے انکار کر دیا‘‘۔ معلوم نہیں وزیراعظم نے پیشکش کی ہے یا نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہرگز شیخ صاحب انکار نہ کریں گے۔ ریلوے کی وزارت پہ وہ شاد نہیں۔ ذہنی توانائی ماشاء اللہ بہت ہے اور چمک دمک بھی۔ ٹی وی پہ کم لوگ اس طرح جگمگا سکتے ہیں‘ جس طرح شیخ صاحب۔ ریلوے کی اصلاح ان کے بس کی بات نہیں۔ سعد رفیق کا پاسنگ بھی شاید نہ کر سکیں۔ ایک عظیم کارنامہ انجام دینے کا موقعہ سعد رفیق کو ملا تھا۔ اگر سیاست اور کاروبار میں اپنا وقت برباد نہ کرتا… اور وزیراعظم اس کی مانتے تو پاکستان ریلوے کا خسارہ کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔ شیخ صاحب سیاست کے سوا کسی کام کے نہیں۔ وزارت اب ان کے لیے چھوٹی پڑ رہی ہے۔ وہ زیادہ بڑے کردار کے متمنی ہیں۔آپس کی بات یہ ہے کہ صرف شیخ صاحب ہی اطلاعات کی وزارت کے آرزو مند نہیں۔ ایک یوسف بیگ مرزا بھی ہیں‘ ایک افتخار گیلانی بھی۔ کچھ دوسرے وزرائے کرام بھی۔ ہر ایک کی تشہیر کرنے والا ایک ٹولہ بھی ہے ۔اقتدار کی غلام گردشوں میں جو فصل سب سے زیادہ پروان چڑھتی ہے‘ اس کا نام سازش ہے ‘ درباری سازش۔ خان صاحب کی حکومت میں کاشت کاری کا آغاز ہو چکا۔ تیل دیکھو‘ تیل کی دھار دیکھو۔ایسے میں عمران خان کیا کرتے ہیں؟ وزراء کو وہ کوستے ہیں اور کبھی کبھی خود کو بھی کہ کن لوگوں سے واسطہ آن پڑا ہے۔