لاہور (ویب ڈیسک) عدالت میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سپریم کورٹ کی راہداری میں سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی یہ بات پھیل چکی تھی کہ آج اس اہم کیس کی سماعت نہیں ہوگی۔ حیرانی سے اپنے رپورٹر صبیح الحسنین سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک پارٹی کے وکیل خالد انور نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کے سٹاف نے پہلے ہی عدالت میں درخواست دے دی ہے کہ وہ سماعت نہ کریں‘ تاریخ دے دیں‘ کیونکہ وکیل صاحب کو اچانک بلڈ پریشر ہوگیا ہے ‘لہٰذا وہ پیش نہیں ہوسکتے۔ یوں پانچ منٹ کی کارروائی کے بعد سماعت بائیس اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔ عدالت سے باہر نکلے تو اٹارنی جنرل انور منصور سے ملاقات ہوگئی ۔ میں نے ان سے پوچھ لیا‘ سرجی یہ تو بتائیں کہ حکومت نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا‘ وہ پاکستان کے عوام سے اکٹھے کیے گئے ساڑھے چار سو ارب روپے میں سے پچاس فیصد اور سود معاف کررہی تھی‘ کیا وزیراعظم عمران خان یا صدر پاکستان عارف علوی صاحب نے یہ آرڈیننس جاری کرنے سے پہلے اپنے اٹارنی جنرل سے مشورہ کیا تھا ؟ انورمنصور نے غور سے میری طرف دیکھا اور بولے: نہیں مجھ سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ۔ ایک لمحے کے لیے میں سُن ہوکر رہ گیا کہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت ‘جو بار بار کہہ رہی ہوکہ عدالتوں نے سٹے دے رکھے تھے‘ لہٰذا وہ ڈیل کرتے ہوئے ساڑھے چار سو ارب روپے کا پچاس فیصد معاف کررہی ہے‘ نے اتنا تکلف تک نہیں کیا کہ وہ اپنے اٹارنی جنرل سے ہی پوچھ لیتی کہ بتائیں اس کیس میں کتنی جان ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ابھی ہم بم شیل سے سنبھل ہی رہے تھے کہ محمد مالک نے اٹارنی جنرل سے پوچھا لیا :سر یہ بتائیں حکومت کے مقدمہ جیتنے کے کتنے چانسز ہیں؟ انور منصور بولے: دس میں سے چھ سے لے کر سات تک امکانات ہیں۔مطلب ساٹھ فیصد سے ستر فیصد تک امکان تھا کہ حکومت کو ساڑھے چار سو ارب روپے واپس مل جائیں ۔اس پر میں نے انور منصور سے پوچھا: سرجی یہ تو بتائیں‘ یہ ساڑھے چار سو ارب روپے ٹیکس کی رقم کا فگر کہاں سے آیا ہے؟ ان کا کہنا تھا :یہ وہ بلنگ ہے جو کمپنیوں نے خود دکھائی ہے کہ ہم نے لوگوں کو ساڑھے چار سو ارب روپے کی بلنگ کی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ وہ کمپنیاں ٹیکس اکٹھا کرچکی تھیں۔ انہوں نے مرضی سے وہ فگر خود ہی دیا اور اب ٹیکس دینے کی بجائے حکومت انہیں پچاس فیصد معاف کرنے پر تل گئی تھی۔ہم سر پکڑے وہیں کھڑے رہ گئے کہ یہ کیا کیا انکشافات ہورہے ہیں۔ ابھی ہم اس حیرانی سے نکل ہی رہے تھے کہ پتا چلا حکومت پاکستان کو تقریباً پچاس لاکھ ڈالرز رشوت کے وہ ثبوت ملے ہیں جو پیپلز پارٹی دور میں ترکی کے کرائے کے جہاز کے مالکان نے پیپلز پارٹی کے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو دی تھی ۔ ان چھ لوگوں کی منی ٹریل بھی مل گئی تھی کہ کس کمپنی نے کس کو پیسے دیے اور وہ کہاں سے کس کے اکاؤنٹ میں گئے ۔ مطلب یہ کہ پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریٹس نے غیرملکی کمپنیوں کو پاکستانی لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ مارنے کی جو اجازت دی تھی‘ اس کے لیے لاکھوں ڈالرز کا کمیشن کھایا گیا تھا۔ خاصی دیر سے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس ملک کا کوئی وارث ہے؟ پچھلی حکومت نے ایک رینٹل پاور میں پچاس لاکھ ڈالرز رشوت لی تو اب موجودہ حکومت کے وزیروں کے سکینڈ ل آنا شروع ہوگئے ہیں‘ یہی وزیر اب کہتے ہیں کہ فوری طور پر میڈیا کے لیے سمری ٹرائل ٹائپ ٹریبونل بنا کر سکینڈل بریک کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں۔ یہ ملک پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں‘ لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں لیکن جوابدہی کے لیے تیار نہیں۔ بہرحال میڈیا تیار رہے‘ جنرل مشرف دور کی واپسی ہورہی ہے‘ جب حکومت کے خلاف خبریں نہیں چھپ سکتی تھیں ۔ اگر چھاپتے تھے تو یا چینل بند ہوتے یا صحافی نوکریوں سے فارغ ہو جاتے تھے۔ سوچا تھا نئے لوگ آئیں گے‘ کچھ نئی شروعات ہوں گی‘ کچھ نیا ہوگا ‘ مگر منگل کے روز کابینہ اجلاس کی دستاویزی کارروائی پڑھنے کے بعد دل بجھ سا گیا ہے۔ یہ سب بادشاہ ہیں ‘یہ لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔ سب قانون اور سزائیں عوام کے لیے ہیں۔ بادشاہ اور اس کے وزیر غلط کر ہی نہیں کرسکتے۔ عوام ہی غلطیاں کرتے ہیں۔ سب قانون اور سزائیں بھی عوام ہی کے لیے ہیں ۔ پتا چلا وہیں جا پہنچے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ کیا واقعی اس ملک کا کوئی وارث نہیں رہا؟(ش س م)