سکہ خواہ ملکی ہو یا غیر ملکی، ہر سکے کے دو ہی رخ ہوتے ہیں۔ بلکل اس طرح جیسے سوچ یا تو منفی ہوتی ہے یا مثبت۔ یہ میں نہیں کہتی بلکہ ہم جب معاشرتی تعلقات سے جڑتے ہیں اور میل ملاپ رکھتے ہیں، تو ہمیں اس طرح کے روئیے سیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ اتنا درست نہیں ہے۔
چونکہ ہر نام کے ساتھ ایک کہانی ہے، اور کامیاب لوگ اپنی حاصل کردہ کارکردگی کے حوالوں سے دلچسپ نظریات کا احاطہ کرتے ہیں۔ جیسے ان کی زندگی کا اہم موڑ، فلسفہ وغیرہ۔ کامیابی کی یہ فٹ سٹوری کتنے اہتمام سے لکھی جاتی ہے، یہ بہرحال ایک الگ موضوع ہے۔ میں واپس اس سوچ کی طرف آتی ہوں جسے ہم “اوپن مائنڈڈ” اور “کلوز مائنڈڈ” کہتے ہیں۔ اس پر بہت بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یہ “کامیابی” کی ایک ایسی کنجی ہے، جس کی حقیقی زندگی میں تشریح ہی کچھ اور ہے۔ اوپن مائنڈڈ اسے کہتے ہیں جس میں کچھ سیکھ کر آگے بڑھنے کا رجحان ہوتا ہے۔ جبکہ کلوز مائنڈڈ اپنی سوچ پر ڈٹے رہنے کا نام ہے۔ تنگ نظر، بنیاد پرست اور ترقی یافتہ یا لبرلز کے لیبل انھی دو نظریات کے ارد گرد گھومتے ہیں۔
اوپن مائنڈڈ لوگ چیلنجنگ سمجھے جاتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے ان اصولوں کو متعین کرنے والے بھی خود وہ لوگ ہیں، جن کا جھکاؤ کسی ایک پہلو کی طرف ہوتا ہے۔ پھر کسی ایک نظریہ پر جھکاؤ رکھنے والا انسان چیلنجنگ کیسے ہو سکتا ہے؟
یا پھر میں کہہ سکتی ہوں کہ عین اس وقت وہ شخص بھی کلوز مائنڈڈ ہو جاتا ہے، مطلب یہ کہ انسانی ذہن ایک سمت سے دوسری سمت کی جانب سفر کرتا رہتا ہے۔ درحقیقت وہ جہاں اپنے جیسے قائل افراد کو اختیار کر کے کچھ معیار کا تعین کرنے بیٹھتا ہے، وہیں اس کی سوچ کی نمائندگی شروع ہو جاتی ہے۔ جو اصل میں کلوز مائنڈڈ ہے۔
آج ہم ایسے ترقی پسند اور روشن خیال لوگوں میں ہیں، جو صرف مذہب لفظ کے استعمال پر بھی آپ کو کلوز مائنڈڈ ہونے کا ٹھپہ دے دیتے ہیں، لیکن انسانیت کا نعرہ دینے والے کو 100 بچوں کے قتل میں بھی انسانیت یا انسانوں جیسا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر یہ کشادہ ذہنی ہے تو پھر تنگ نظر کون ہیں!
یقیناَ ہر وہ شخص غلط ہے جو میرے “راستے” پر نہیں ہے۔ یہی سب سے اہم وجہ ہے اختلاف کی۔ مثال کے طور پر اگر ایک تنگ نظرشخص اپنی مخصوص عینک کے بنا لوگوں کو نہیں دیکھ سکتا تو دوسری جانب اپنے وضع کردہ روشن خیالی کے خول سے آپ بھی باہر نہیں آ پاتے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد آپ سوچیں کہ ہمارے پاس کونسا راستہ بچتا ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ ٹھیکہ داری چھوڑ دیں، یہی چیز آپ کو بار بار ایک ہی عمل سے گزارتی ہے۔ زندگی نہ تو منفی ہے نہ مثبت، اس کے وسیع پہلو ہیں، جب تک کہ ہم اسے اپنی سوچ سے مختصر نہ کردیں۔