تحریر : علامہ یوسف ثقلین حیدر
ولادت ٣ شعبا ن ٤ھ
١۔ اسم گرامی …حسین (یہ نام خود پروردگار کا رکھاہواہے )۔ ارجح المطالب
٢۔ کنیت …ابوعبداللہ
٣۔ القاب …سید سبط اصغر، سید الشہداء وغیرہ
٤۔ والد محترم…حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام
٥۔ والدہ گرامی …حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام
٦۔ ولادت …٣شعبان ٤ھ
٧۔ شہادت …٠١ محرم ٦١ھ
٨۔ مقامِ ولادت …مدینہ منورہ
٩۔ مدفن …کربلائے معلیٰ
٠١۔ازواج …جناب شہر بانو ، جناب ام لیلیٰ ، جناب رباب
١١۔اولاد …امام زین العابدین ، علی اکبر ، علی اصغر ،سکینہ ،فاطمہ (بربنائے مشہور)
شہادت ١٠محرم ٦١ ھ
ماہِ شعبان ٤ھ کی تیسری تاریخ کی صبح تھی جب پرور دگار عالم نے صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دوسرافرزند عطاکیا۔ جس کا سب سے پہلا امتیاز یہ تھاکہ ان کے شکم اطہر میں رہنے کی کل مدت چھ ماہ تھی جس کی نظیر تاریخ انبیاء میں جناب عیسیٰ اور جناب یحییٰ کے علاوہ کسی اور مقام پر نہیں ملتی ہے اور قرآن حکیم نے بھی انسان کے حمل اور رضاعت کے ٠٣ مہینہ سے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کیاہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جناب عیسیٰ اور جناب یحییٰ پرآیت کے دوسرے اجزاء کا انطباق نہیں ہوتاہے اور اس کا حقیقی مصداق امام حسین کے علاوہ کوئی نہیں رہ جاتاہے۔ آیت میں ٠٤سال کی زندگی کا ذکر ہے اور جناب یحییٰ اس عمر سے پہلے شہید کردیے گئے اور اسی طرح آیت کریمہ میں ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کا ذکر ہے اور جناب عیسیٰ بغیر باپ کے اس دنیامیں بھیجے گئے تھے لہٰذا آیت کا انطباق ان کی ذات پر بھی نہیں ہوسکتاہے۔
آپ کی ولادت کے موقع پر بھی جناب ام الفضل کے خواب کا تذکرہ پایا جاتاہے اور آپ کی ابتدائی زندگی کا آغاز بھی ام الفضل کے خدمات سے ہوتاہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس موقع پر ام الفضل نے یہ بیان بھی دیاہے کہ رسول اکرم ۖ نے بچوں کی ولادت کی مسرت کے ساتھ گریہ بھی فرمایا اور ام الفضل اور ام سلمہ کے سوال پر اس انجام کی نشان دہی کی جو اس فرزند کی زندگی کے خاتمہ پر مصائب اور شہادت کی شکل میں پیش آنے والا ہے۔ولادت کے بعد رسول اکرم ۖ ہی نے کانوں میں اذان اور اقامت کہی اور آپ ۖ ہی نے حکم پروردگار کے مطابق حسین نام رکھا جو اس سے پہلے کسی بچہ کا نام نہیں تھا اور قدرت نے اسے اپنے خزانہ خاص میں محفوظ کررکھاتھا اوراس کا منشا یہ تھاکہ جس طرح شخصیت لا ثانی ہے اسی طرح نام بھی بے مثال اور لا جواب رہے۔رسول اکرم ۖہی نے اپنے زیر اہتمام عقیقہ کا انتظام کیا اور آپ نے غذا کا یہ انوکھا انتظام کیا کہ بچہ کو اپنی زبان مبارک یا انگشت مبارک کے ذریعہ سیر وسیراب کردیا کرتے تھے اور کسی دوسری غذا کی طرف متوجہ نہ فرماتے تھے حتیٰ کہ بروایت کافی شیر مادر سے بھی بے نیاز رکھاتھا:
بظاہر تو زباں چوسی بباطن ابن حیدرۖ نے
زباں دے دی پیمبرۖکو زباں لے لی پیمبرۖسے
امام حسینۖ کی زیارت میں بھی اس نکتہ کی طرف اشارہ موجود ہے کہ آپ کی تربیت اسلام کی آغوش میں ہوئی ہے اور آپ کو دودھ ایمان کے مرکز سے ملاہے۔آپ کے القاب میں سید، سبط اصغر ، شہید اکبر اور سیدالشہداء مشہور القاب ہیں، اور کنیت ابو عبداللہ ہے جس سے عام طور پر یاد کیا جاتاہے۔آپ کی شخصیت کا دوسرا امتیاز یہ تھاکہ آپ کی ولادت پر جبریل امین ملائکہ کی فوج لے کر رسول اکرم ۖکی خدمت میں مبارک باد پیش کرنے کے لیے آئے اور اس سلسلہ میں بعض معتوب ملائکہ کی بخشش کا بھی انتظام ہوگیا جنہوں نے کوئی گناہ نہیں کیاتھا لیکن ترک اولیٰ کی بنا پر ان پر عتاب نازل ہوگیاتھا اور عظمتِ حسین ۖ کے اظہار کے لیے رب العالمین نے ان کے عتاب کو برطرف فرمادیا۔ (روایت میں ان کے نام فطرس اور دردائیل بیان کیے گئے ہیں۔)آپ کی ولادت کا سال اسلامی تاریخ میں کسی بڑے حادثہ کاسال نہیں ہے لیکن اس کے بعد اسلام چاروں طرف سے نرغہ اعدا میں گھر گیا اور سب سے پہلے اسے کفر و شرک کے تمام احزاب سے بیک وقت مقابلہ کرنا پڑا ، جو امام حسین کی زندگی کا پہلا تاثر تھا کہ کفر و شرک اور یہودیت نے چاروں طرف سے گھیر کر اسلام کو فنا کردینے کا منصوبہ بنالیا ہے اور جد بزرگوار ایک میرے پدر بزرگوار کی طاقت کے اعتماد پر سب سے مقابلہ کے لیے تیار ہیں
آخرمیں پھر کل کفر کا خاتمہ بھی ہوجاتاہے۔ جس نے امام حسین کی اس ذمہ داری کا بھی اعلان کردیا کہ جب اسلام چاروں طرف سے نرغہ اعدا میں گھر جائے تو اس کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے ہی گھرانے پر عائد ہوتی ہے اور کل کفر کے خاتمہ کا عمل اپنے ہی گھرانے کو انجام دیناہوتاہے۔جس کا دوسرا منظر اسلام کی تاریخ میں کربلا کے میدان میں پیش آیا اور امام حسین کی زندگی کی ابتدا اور انتہا یکساں حالات کا نمونہ بن گئی۔
٦ھ میں حدیبیہ کی صلح کا واقعہ پیش آیاجو امام حسین کی زندگی کا دوسرا موقع تھا اور جس پر آپ نے اسی طرح امام حسن کی صلح کے موقع پر عمل درآمد کیا جس طرح رسول اکرم ۖ کے ساتھ مولائے کائنات نے صلح میں حصہ لیاتھا ورنہ علی کے ہاتھ میں بھی زور خیبر شکنی تھا اور حسین بھی جہاد کربلا کا حوصلہ رکھتے تھے۔
٧ھ میں اسلام کو بدترین دشمن یہودیوں سے سابقہ پڑا جہاں جملہ مسلمانوں کے فرارکرجانے کے بعد مولائے کائنات نے خیبر کو فتح کرلیا جو امام حسین کی زندگی کا تیسرا موقع تھا۔ جس کانمونہ اس دن پیش آیا جب تمام بڑی شخصیتوں نے یزیدیت سے خوف زدہ ہو کر خانہ نشینی یا راہِ فرار اختیار کرلی اور امام حسین اپنے اہل حرم کے ساتھ قصر یزیدیت کی چولیں ہلا دینے کے لیے کھڑے ہوگئے اور اپنے منصوبہ کو مکمل کرکے دکھلادیا۔
٨ھ میں فتح مکہ ہوا جہاں امام حسین نے اپنے ناناکے عفو و کرم کامشاہدہ کیا۔
٩ھ میں عیسائیوں کے مقابلہ میں مباہلہ ہوا تو اس میں امام حسین نے بنفس نفیس شرکت کی اور سب سے کمسن بلکہ بالکل کمسن ہونے کی بنا پر اپنے ناناکی آغوش میں میدان میں آئے اور یہ واضح کردیا کہ حق و صداقت کا معرکہ سن و سال کا محتاج نہیں ہوتا ہے اور جس شخص کو اپنی صداقت پر اعتماد ہوتاہے اسے ایسے معرکہ میں حصہ لیناہوتاہے۔
امام حسین نے ناناکے اس طرزِ عمل کی بھی تجدید کربلا کے میدان میں کی جب عیسائی عورت میسونہ کی گود کے پالے یزید کے لشکر کے مقابلہ میں حق و صداقت کا سب سے کمسن مرقع علی اصغر کی شکل میں پیش کردیا اور فوجِ دشمن کو اس طرح منہ پھیر پھیر کر رونے پر مجبور کردیا جس طرح عیسائی اپنی شکست مان کر جزیہ دینے پر تیار ہوگئے تھے۔
١٠ھ میں حجتہ الوداع کاواقعہ پیش آیا جہاں حج سے واپسی پر رسول اکرم ۖ نے مقام غدیر خم پر حضرت علی کی مولائیت کااعلان کیا اور تمام اصحاب نے اس مولائیت کی مبارک باد پیش کی اور حضرت علی کے دست مبارک پر بیعت کی جس کے بعد تین دن تک قافلہ آگے نہ بڑھ سکا اور رسول اکرم اسی بیابان میں ٹھہرے رہے۔
رسول اکرم ۖکے دورمیں اگر کبھی امام حسین کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تو آپ نے فوراً گود میں اٹھالیا کہ مجھے حسین کے گریہ سے تکلیف ہوتی ہے۔اگر مسجد میں آکر گر پڑے تو آپ نے خطبہ قطع کرکے منبر سے اْتر کر اٹھالیا اور فرمایاکہ ایہاالناس اسے پہچانو !اس کا احترام کرو اور وقت پڑنے پر اس کی مدد کرنا۔ اگر کبھی پشت مبارک پر بیٹھ گئے تو آپ نے سجدہ کو طول دے دیا۔ اگر کبھی عید کے دن مچل گئے تو آپ نے پشت پر بٹھاکر ناقہ کا انداز اختیار کرلیا۔ اگر کبھی بچہ آہو کا تقاضا کردیا تو حضور اکرم ۖ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوئے جب تک بچہ آہو حسین کے حوالے نہ کردیا۔ اگر مباہلہ کے میدان میں لے گئے تو اپنی گود میں اٹھایا تاکہ حسین کو راستہ چلنے کی زحمت بھی نہ ہو۔ اگر آغوش میں ابراہیم جیسا فرزند رہا اور قدرت نے کہہ دیا کہ ایک کو اختیار کرو تو ابراہیم کو قربان کرکے حسین کو بچالیا۔ اگر کبھی حبیب بن مظاہر کو خاک قدم حسین کو آنکھوں سے لگاتے دیکھ لیا تو حبیب کو گود میں اٹھالیا کہ یہ میرے فرزندحسین کا قدردان ہے۔ (روضہ الشہداء )
امام حسن نے بھائی کی صلح کے احترام میںان تمام مصائب کوبرداشت کیایہاںتک کہ صفر٥٠ھ میںامام حسن کوزہردے کرشہیدکرادیاگیااوراسلام کی ذمہ داری امام حسین کی طرف منتقل ہوگئی۔آپ نے انتہائی شدیدمظالم اوربدترین عہدشکنی کے باوجودبھائی کی صلح کااحترام باقی رکھا۔یہاں تک کہ اسلامی محاذپرامام حسین کے علاوہ کوئی نہ رہ گیاجنہوںنے یزیدکے مطالبہ بیعت کاجواب دیااورولیدجیسے گورنرکے دربارمیںاعلان کردیاکہ میںفرزندرسول ہوںاوریزیدشارب الخمر،جواری اورزناکارہے اورمجھ جیساانسان اس جیسے خبیث انسان کی بیعت نہیںکرسکتاہے۔جس کے بعدمصائب کاایک اوردورشروع ہوگیااور٢٨رجب٦٠ھ کوامام حسین نے مدینہ چھوڑدیا۔تیسری شعبان کومکہ مکرمہ پہنچے اورحرم خداکومامن قراردیا۔لیکن حج بیت اللہ کے موقع پریزیدی سپاہیوںنے لباس اوراحرام میںخنجرچھپاکرامام حسین کے قتل کامنصوبہ بنالیاتوآپ نے مکہ مکرمہ کوبھی چھوڑ دیا اور بظاہرعراق کارخ کرلیا۔مخلصین نے مشورے دیے،ناصحین نے نصیحت کی،ناقدین نے تنقیدکی لیکن آپ خواب رسول اورحکم خداکاحوالہ دے کراپنے سفرکوجاری رکھے رہے یہاںتک کہ ٢محرم کو وار دسرزمین کربلاہوگئے۔تیسری محرم سے یزیدی فوجوںکی آمدشروع ہوگئی۔
پانچ محرم سے فرات پر ظالموںکاقبضہ ہوگیا۔٧محرم کوخیام حسین میںقحط آب ہوگیا۔٩محرم کوامام حسین نرغہ اعدامیں گھر گئے۔روزعاشوریزیدکے کم سے کم ٣٠ ہزارسپاہیوںاورامام حسین کے ٧٢ مخلصین کے درمیان قیامت خیزمقابلہ ہوااورعصرکاہنگام آتے آتے امام حسین مع اپنے جملہ اصحاب اورافرادخاندان کے تین دن کے بھوکے پیاسے راہ خدامیںقربان ہوگئے اوران کے خیمے جلادیے گئے۔شام غریباں بے کسی اوربے بسی کے ماحول میںگذرگئی اوراا محرم کواہل حرم کوقیدی بناکرکوفہ کی طرف لے جایاگیا جس قافلہ کی قافلہ سالاری کاکام امام زین العابدین کے حوالے کیاگیااورامام محمدباقر اانتہائی کمسنی کے باوجوداس قیامت خیزمصیبت میںبرابرکے شریک رہے۔شہادت امام حسین پرزمین وآسمان سب نے گریہ کیااورآثارقیامت نمودار ہوگئے۔لیکن ظالموںکے دل ودماغ پرکوئی اثرنہیں ہوا، اور ان کے مظالم کاسلسلہ اہل حرم پربرابر جاری رہا۔یہاںتک کہ کوفہ وشام کے بازاروں، درباروں اورقیدخانوںسے گذرنے کے بعدایک سال کی مدت قیدگذارکربروایتے٨ربیع الاول ٦٢ھ کو لٹاہواقافلہ اپنے وطن مدینہ واپس آیا،اورجناب ام کلثوم نے رجعنالارجال ولابنیناکامرثیہ پڑھا۔
کربلائے امام حسین
فرزندزہرا
وہ ہادی برحق…جس نے آخری سانس تک دین کاپیغام سنایا!
وہ قاری قران …جس نے نوک نیزہ پربھی تلاوت کی!
وہ محافظ حرم …جس نے حرمت کعبہ کے لیے حج کوعمرہ سے تبدیل کردیا!
وہ پاسبان شریعت …جس نے امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے لیے وطن عزیزکوترک کردیا!
وہ مجاہدفی سبیل اللہ …جس نے تین دن کی بھوک اورپیاس میںجہادکیا!
وہ ذمہ داراسلام …جس نے بقائے دین کے لیے بھراگھرلٹادیا!
وہ عبادت شعار …جس نے برستے تیروںمیںنمازاداکی!
وہ سجدہ گزار …جس نے زیرخنجرستم سجدہ کیا!
وہ مساوات کاعلمبردار …جس نے جون کاسراپنے زانوپررکھا!
وہ صاحب ایثار…جس نے راہ حق میںطفلِ شیرخوارکوبھی قربان کردیا!
وہ راکب دوش رسول …جس کی خاطرمرسل اعظم ۖناقہ بنے!
وہ حافظ فروع واصول…جس نے پشت پیغمبرۖپرآکرسجدہ کوطولانی بنادیا!
وہ وارث خلق عظیم…جس نے بیگانوںکوبھی سیروسیراب کیا!
وہ مولائے رحیم وکریم…جس نے حرکی خطاکومعاف کرکے اسے حقیقی حربنادیا!
امام حسین وسیلہ عمل بالقرآن
١۔ حکمِ عبادت پر آخری سانس تک عملی درس دیتے رہے۔
٢۔ حکم تقویٰ پر عمل کے لیے سراپا تقویٰ بنے رہے۔
٣۔ حکم انفاق پر عمل کے لیے بھرا گھر لٹادیا۔
٤۔ حکم جہاد پر بہرنوع اور بہر انداز جہا د کا طریقہ تعلیم فرمایا۔
٥۔ حکم تَزَوَّدْواپرتقویٰ کو ہر محب کے لیے زادراہ بنادیا۔
٦۔ حکم اَقرِضْوا ، پر سب کچھ راہ خدا میں دے دیا۔
٧۔ حکم استجابت پر تاحیات حکم خدا و رسول ۖ پر لبیک کہنے کاذریعہ بنے رہے۔
٨۔ حکم تقدیم پر سب کچھ راہِ خدا میں پیش کردیا۔
٩۔ حکم سَارِعْو ا پر سب کے لیے سبب مغفرت بن گئے۔
٠١۔ حکم دعا پر وسیلہ ،استجابت دعا بن گئے۔
١١۔ حکم نصرت خدا پر راہ نصرت پروردگار قرار پائے۔
٢١۔ حکم اجابت داعی خدا پر مستقل داعی الی اللہ بن گئے۔
٣١۔ حکم جستجوئے وسیلہ پر ساری امت کے لیے وسیلہ نجات بن گئے۔
٤١۔ حکم اختیار سبیل اللہ پر بہترین سْبل و اقرب طرق بن گئے۔
امام حسین اور قرآن
١۔ تاریخِ زندگانی
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک برتائوکرنے کی وصیت کی کہ اس کی ماں نے زمانہ حمل اور وقت ولادت بڑے رنج کا سامناکیاہے اور اس انسان کے حمل اور دودھ پینے کا زمانہ کل ملا کر تیس٣٠ مہینے ہوتاہے۔یہاں تک کہ جب وہ انسان توانا و تندرست اور ٤٠ سال کاہوگیا تواس نے ہماری بارگاہ میں دعا کی کہ بارالٰہا مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کاشکریہ اداکروں جو تونے مجھ پر اور میرے والدین پر نازل کی ہیں اور ایسا عمل صالح کروں کہ توراضی ہوجائے اور میری اولاد کو صالح قراردے کہ میں تیری ہی طرف متوجہ ہوں اور تیرا اطاعت گزار بندہ ہوں ……(احقاف ٥١)
امام حسین اور ارشادات رسول اکرم
١۔پروردگار ! میں حسین کو دوست رکھتاہوں تو اسے اور اس کے دوستوں کو دوست رکھنا…(مسند احمد بن حنبل )
٢۔ میں اہلبیت سے جنگ کرنے والے کے لیے سراپا جنگ اور صلح کرنے والے کے سراپا صلح ہوں…(مسند احمد)
٣۔ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ پروردگار حسین کے دوست کو دوست رکھتاہے …(مسند احمد )
٤۔ حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں …(مسند احمد)
٥۔ جو سردارجوانانِ جنت کو دیکھنا چاہتاہے وہ حسین کی طرف نظر کرے …(مسند احمد)
٦۔ حسن و حسین دنیا میں میرے دو٢ پھول ہیں …مسند احمد
٧۔میرے تمام گھرانے میں سب سے زیادہ محبوب حسن و حسین ہیں …(ترمذی)
٨۔ میں نے حسن و حسین کے نام اس لیے رکھے ہیں کہ یہ جنتی نام ہیں …(ایضاح بغوی)
٩۔ جو حسن وحسین کو دوست رکھے گا وہ میرا دوست ، اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ میرا دشمن ہے…(ابو سعد)
٠١۔مجھے حسین کے رونے سے تکلیف ہوتی ہے…(ابن مینع)
١١۔ جوحسن و حسین ، ان کے باپ اور ان کی مادر گرامی سے محبت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا…(مسند احمد)
٢١۔حسین ! تم سید ابن سید، برادر سید ،امام ، ابن امام ، برادر امام ،حجت ابن حجت اور برادر حجت ہو …(مؤد القربیٰ )
٣١۔حسین میرا پارہ جگر ہے۔ جو اسے اور اس کی اولاد کو دوست رکھے اس کے لیے طوبیٰ ہے اور اس کے قاتل کے لیے جہنم ہے…(مؤد القربیٰ )
٤١۔میرا حسین سرزمین طف پر شہید ہوگا اور یہ امت میرے بعد فتنہ میں مبتلا ہوجائے گی۔ (جمع الفرائد )
ازواج
مورخین اورسیرت نگاروںنے امام حسین کی پانچ ازواج کی نشان دہی کی ہے۔
١۔جناب شہربانوجنہیںشاہ زناںبھی کہاجاتاہے۔آپ کے فرزندامام زین العابدین تھے اورآپ کاانتقال امام کی ولادت کے دس دن کے اندرہی ہوگیاتھا۔واقعہ کربلاکے ذیل میںبعض مرثیوںمیںآپ کاتذکرہ بے بنیادہے۔ہوسکتاہے کوئی اورخاتون رہی ہوںجنہیںامام کی ماں ہونے کاشرف حاصل نہ رہاہومگرشہربانورہی ہوں،اس لیے کہ شہربانوایک قسم کالقب ہے جوکسی بھی معززخاتون کودیاجاسکتاہے۔(بعض محققین نے تاریخ میںشہربانوکے وجو دہی کاانکارہے)۔
٢۔لیلیٰ بنت ابومرہ بن عروہ بن مسعود۔یہ جناب علی اکبرکی والدہ تھیںاوران کے بارے میںبھی اکثرمحققین کی رائے ہے کہ یہ واقعہ کربلامیںموجودنہ تھیںاورمعتبرکتب سے ان کاوجود ثابت نہیںہوتاہے،اگرچہ بہت سے اہل قلم نے آپ کے واقعات بھی درج کیے ہیںاورکربلاکے واقعات میںآپ کاتذکرباربارکیاجاتاہے۔
٣۔رباب بنت امرء القیس۔یہ جناب علی اصغر اورجناب سکینہ کی والدہ گرامی تھیں۔ جو واقعہ کربلامیںموجودتھیںاورکربلاکے بعدتقریباًایک سال زندہ رہیںلیکن کبھی سایہ میںنہیںبیٹھیں کہ دھوپ میںلاش امام حسین دیکھ کریہ عہدکرلیاتھاکہ تاحیات سایہ میںنہ بیٹھیںگی۔
٤۔قضاعیہ۔ان کے فرزندکانام جعفربتایاجاتاہے جن کاتذکرہ بعض مورخین نے کیاہے۔
٥۔ام اسحاق بنت طلحہ۔ان کی دخترکانام فاطمہ ہے جن کاعقدحسن مثنیٰ فرزندامام حسن کے ساتھ ہواتھا۔
اولاد
مذکورہ بالابیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام کی کل اولادچھ٦تھی۔ چار فرزند اور دودختر۔اگرچہ ابن شہرآشوب نے چھ فرزندوںکاذکرکیاہے اوردونام محمداورعبداللہ بتائے ہیں اور بعض حضرات نے تین دختران کاذکرکیاہے اورایک کانام زینب بتایاہے۔ اس کے علاوہ اوربھی اختلافات پائے جاتے ہیںجن کی تحقیق کایہ موقع نہیںہے۔البتہ یہ بات بہرحال واضح ہے کہ اگرجناب فاطمہ کاعقدحسن مثنیٰ سے ہوچکاتھاتوپھرعقدقاسم کی داستان بالکل بے بنیادہے۔پھریہ بھی بات قابل تحقیق رہ جاتی ہے کہ اگرجناب فاطمہ اورجناب سکینہ دوہی دختران تھیںتورقیہ بنت الحسین سے مرادکون سی خاتون ہیںجن کاروضہ شام میںنمایاں حیثیت رکھتا ہے اورآج بھی مرجع خلائق بناہواہے۔ جناب سکینہ کے بارے میں بھی دورقدیم سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ آپ کاانتقال زندان شام میں ہواہے یانہیں۔ اس لیے کہ اکثرکتب میں آپ کانام نہیں ذکرکیاگیا ، صرف ایک ”بیت صغیرہ” کی نشاندہی کی گئی ہے اورہوسکتا ہے کہ وہ رقیہ بنت الحسین ہوں جنہیں اس مقام پر دفن کردیاگیاجہاں ان کاانتقال ہواتھا۔
ورنہ جناب سکینہ کے نام کی قبردمشق کے قبرستان میں بتائی جاتی ہیاوروہ اس لئے محل بحث ہے کہ وہیں جناب ام کلثوم کی قبر بھی ہے اوران کاشام سے مدینہ جاناتقریباً مسلمات میں ہے اورپھردوبارہ جناب زینب کے ہمراہ شام میں آکر انتقال فرمانے کاکوئی ذکراہم کاب میں نہیں ملتاہے۔ بہرحال امام حسین کی مظلومیت کاایک نمونہ یہ بھی ہے کہ ظالموںنے واقعات کربلاکے بعد بھی اس قدرمظالم کاسلسلہ جاری رکھاکہ صحیح تاریخ بھی مرتب نہ ہوسکی اورآل رسول کی قبروںکاصحیح تعین بھی نہ ہوسکااوراس مصیبت کاسلسلہ مدینہ میںصدیقہ طاہرہ کی قبرسے شروع ہواتھاجونسلوں میںباقی رہااورآل رسول کی اکثرقبریںبھی بے نشان رہ گئیں۔یہ اوربات ہے کہ جس قدرقبروں کی نشان دہی ہوگئی اورجن قبروںپرروضوںکی تعمیرہوگئی اورجہاںآج تک زیارات کاسلسلہ جاری ہے۔
اتنی قبریںاوراتنے روضے بھی حقانیت کے اثبات کے لیے کافی ہیںورنہ متوکل ملعون نے تو نشان قبرحسین بھی مٹادینے کامنصوبہ بنالیاتھااورکبھی ہل چلواناچاہاتوجانورآگے نہ بڑھے اورکبھی دریا کاپانی لے جاناچاہاتوپانی حیرت زدہ ہوکرٹھہرگیاکہ اب اس مظلوم کی قبرکی طرف کس طرح جائے جس کاکل زیرخنجرایک قطرہ آب نہ مل سکاتھااورجس نے چاہنے والوںکووصیّت کی تھی کہ ٹھنڈاپانی پیناتومیری پیاس کویادکرلینااورکسی غریب وبیکس کاذکرآجائے تومجھ مظلوم پرآنسوبہاناجسے بے جرم و خطاقتل کیاگیاہے اورشہادت کے بعداس کی لاش کوپامال کردیاگیاہے۔
بیابیا متوکل ببیں مزارحسین
زمیں بلندشد وآب نہرشدحائر
تحریر : علامہ یوسف ثقلین حیدر