تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میں تصویر حیرت بنا مادیت پرستی میں غرق گدھ نما انسانوں کو دیکھ رہا تھا ۔ جو ان انسان کی لاش گھر پڑی تھی انسان بھی وہ جس نے اِن سب پر احسانات کئے تھے اِن کی غربت دور کر نے میں مدد کی تھی اِن کے مشکل وقتوںمیں ان کے کام آیا تھا ۔ جب وہ شخص زندہ تھا یہ اُس کے آگے پیچھے خو شامدیں کر تے پھرتے تھے اگر مرحوم کے ما تھے پر ہلکی سی شکن بھی پڑ جا تی تو اِن کی سانسیں رک جا تی تھیں خو شامدیوں کا یہ ٹولا دن رات اپنی محبتوں کا یقین دلا تا جھو ٹی خو شامدیں تعریفیں کر تے اور آج جب وہ دنیا سے چلا گیا تو اُس کی لاش بے یا رومددگار پڑی تھی اور یہ مردار خور جانوروں کی طرح اُس کی جا ئیداد کے حصے کر نے پر تلے ہو ئے تھے ۔ میں نے دو تین بار پو چھا کہ جنازہ کب ہے اور کس مسجد جا نا ہے اور قبر کا انتظام ہو گیا ہے کہ نہیں، تو وہ کہتے کہ پریشانی اور دکھ سے دل ودماغ شل ہو چکے ہیں ابھی ہم فیصلہ کر نے کی پو زیشن میںنہیں ہیں ابھی ہمیں سمجھ نہیں آرہی، لیکن جا ئیداد اور گا ڑیوں کی لو ٹ مار میں ان کے دما غ چل رہے تھے کہ کس کس بنک میں اکا ئو نٹس ہیں جا ئداد کہاں کہاں ہے کا روبار کی نوعیت کیا ہے ہر کو ئی جا ئیداد اور کاروبار پر قبضے کے چکر میں تھا کہ ذرہ سی سستی میں دو سرا قبضہ نہ کر لے،
دھینگا مشتی کا وحشیانہ کھیل جا ری تھا مر حوم کی نو جوان بیٹی بار بار با پ کی لاش سے لپٹ رہی تھی بیوی اور ماں کو بار بار غم کی شدت سے بے ہو شی کے دورے پڑ رہے تھے چھوٹے بچے حیران نظروں سے لوگوں کے ہجوم کو دیکھ رہے تھے نقصان تو بیوی بچوں اور ماں کا ہوا تھا جن کے سر سے چھت اُتر گئی تھی جنہیں اب زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ننگے پا ئوں گزرنا ہو گا ۔ جن کا لاڈ اور نخرے اٹھا نے والا دنیا سے جا چکا تھا حقیقی متا ثرین اور دکھی لو گ تو یہ تھے جن کا ناقابل ِ تلا فی نقصان ہوا تھا ۔ جن کی زندگی ویرانیوں میں تبدیل ہو گئی تھی جن کے گھرپر دکھ پریشانی حسرت و یا س نے ڈیرے جما لیے تھے میرا دل رشتہ داروں کی ما دیت پرستی اور ابن الوقتی پر خو ن کے آنسو رو رہا تھا خون کس طرح سفید ہو تا ہے اِس کا عملی مظا ہرہ میں یہاں دیکھ رہا تھا ۔
میرے اور چند اور دوستوں کے کہنے پر چند اہل محلہ حرکت میں آئے اِن سب کو اکھٹا کیا کہ جنا زے اور قبر کے انتظامات فائنل کر یں اب لوگوں کے بار بار مجبور کر نے پر انہوں نے جنا زے کے وقت کا اعلان کیا اور قبر کے انتظامات کے لیے چند لوگوں کو بھیجا ۔ جب یہ معاملات طے ہو گئے تو اب ایک نیامسئلہ سامنے آگیا اب بھائی صاحب کا پر اصرار اور ضد تھی کہ جنا زے پر یہ اعلان کیا جا ئے کہ مر حوم کے تما م کا روبار جائداد اور لین دین کا وارث اور ذمہ دار میں ہو ں ۔ سسر اور سالا اِس بات سے شدید اختلاف کر رہے تھے کہ بھائی کو تو مرحوم زندگی میں ہی کا روبار سے نکال چکا تھا اِس لیے یہ حق اور ذمہ داری ہما ری بنتی ہے ۔ یہ اعلان ہما را ہو گا ۔ جب بہن اور بہنوئی کو اِس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی اپنا حق اور خدمات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ مر حوم کے سب سے اچھے تعلقات ہما رے ساتھ تھے لہذا ہم ہی حقیقی وارث ہیں لیکن بہن اور بہنوئی کی جب دال نہ گلی تو انہوں نے فوری طو ر پر بھا ئی کے ساتھ اتحاد کر لیا کہ ہم مل کر کام اور جائیداد کو سنبھالیں گے ۔اب بھائی کا پلڑا بھا ری ہو گیا ، بہن بھائی نے ماں جی کو بھی ساتھ ملا لیا اب زبر دستی یہ فیصلہ ہو گیا کہ جنا زے پر بھائی کا اعلان ہو گا ۔ بھا ئی نے مرحوم بھا ئی کے مو با ئل پر اور گھڑی پر قبضہ کر کے یہ اعلان کر دیا کہ اب اگلا وارث میں ہو ں بھائی کے چہرے پر اور بہن اور بہنوئی کے چہروں پر غم اور اداسی کی بجا ئے اب فاتحانہ مسکراہٹ رقص کر تی نظر آئی ۔
وہ میدان جیت چکے تھے وہ بھا ئی کی موت کے صدمے کو بھو ل چکے تھے اب انہوں نے گھر اور دفتر اور گا ڑیوں کی چابیوں پر قبضہ کیا میں معصوم بچوں اور بیوی کے غم و اندوہ میں غرق چہروں کو دیکھ رہا تھا کہ وہ مرحوم کی مو ت کے صدمے میں اِس طرح ڈو بے ہو ئے تھے کہ اُنہیں بلکل بھی خبر نہ ہو ئی کہ اُن کے گھر میں مر حوم کی لاش کی مو جودگی میں ہی کتنا خطرناک کھیل کھیلا جا رہا تھا ۔ اُنہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کس طرح اُن کی تھو ڑی بہت جمع پو نجی پر بھی ہا تھ صاف کیا جا رہا ہے ۔ جب بھائی نے دیکھا کہ اب معاملات اُس کے کنٹرول میں ہیں تو اب وہ فا تحانہ نظروں اور حرکات سے ادھر اُدھر گھو م رہا تھا کیونکہ وہ بیٹھے بیٹھے کروڑوں کی جا ئداد کا مالک بن چکا تھا ۔ کل جو بھا ئی کے سامنے ہا تھ پھیلاتا تھا آج خود اُس کی جگہ کھڑا ہو کر اِس تصور سے ہی نہا ل ہو رہا تھا کہ اب اِس خاندان اور دولت پر اُس کا قبضہ ہے وہ جس کے ساتھ جو چاہے سلوک کر ے کو ئی اِس کو روکنے والا نہیں ہے ۔ کیونکہ میرا مرحوم کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا تھا اِس لیے میں آخری رسومات تک اِدھر ہی رہنا چا ہتا تھا ۔
میرا دل چاہ رہا تھا کہ آخری دم تک رکوں اور دعا کر کے ہی واپس جا ئوں لیکن اِن ظالموں مادیت پرست جا نوروں کے خون آلودہ چہروں کو دیکھ کر مجھے با ربار کر اہت کا احساس ہو رہا تھا کہ کس طرح لوگوں کے چہروں کے رنگ بدلتے ہیں کس طرح جب کسی کو مو قع ملتا ہے تو وہ کس طرح فائدہ اٹھا تا ہے لوگ یہ بھو ل جا تے ہیں کہ گردش لیل و نہار کے بعد کل انہوں نے بھی موت کی وادی میں اُترنا ہے اور یو م محشر میں تمام اعمال کا حساب و کتاب ہو گا لیکن یہ لوگ ہر چیز سے بے خبر لو ٹ مار میں لگے ہو ئے تھے ۔ اُن کی حرکتیں دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا تھا اور پھر آخر نماز جنا زہ کا وقت آیا تو ہم جنا زہ گا ہ پہنچے وہاں بھی چھوٹا بھا ئی پیش پیش تھا وہ اپنی حکو مت اور اقتدار کو انجوائے کر رہا تھا ۔ جنا زہ ہو ا اور پھر وہاں پر اعلان کیا گیا کہ مر حوم کے بعد اُس کے تما م لین دین کا مالک اب اُس کا چھوٹا بھا ئی ہو گا۔ آج سے مر حوم کہ جگہ تما م اختیارات کا مالک یہ بھا ئی ہو گااور بھا ئی فاتحانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور اِس طرح کھڑا تھا ۔ جیسے کو ئی بہت بڑی جنگ جیت کر آیا ہو جیسے اُس کی گم شدہ دولت یا لا ٹری لگ گئی بھا ئی کی مو ت اور جدا ئی کا غم اُسے بلکل نہیں تھا وہ تو مستقبل کے سہا نے خوابوں اور تا نوں با نوں میں گم تھا کہ بھا ئی کی دولت کا روبار اور گا ڑیوں کا اب وہ اکلوتا وارث ہے اِن کو کس طرح استعمال اور عیا شی کر تی ہے وہاں ایک عجیب منظربھی دیکھا کہ جنا زے پڑھتے ہیں سالاصاحب اور سسر صاحب غصے سے اٹھے اور چلے گئے کیونکہ وہ خو د کو شکست خو رد سمجھ رہے تھے بھا ئی کی جیت اور متکبرانہ رویہ اُن سے بر داشت نہیں ہو رہا تھا ۔
اب ہم قبرستان چلے گئے جہاں مر حوم کو پیوند خا ک کر دیا گیا ۔ اِس طرح مٹی کا ڈھیر مٹی کے ڈھیر کا حصہ بن گیا ۔ اب ہم واپس گھر آئے تو سب کو شدت سے انتظار تھا کہ کھانا کیسا ہے اور اب کھا نا ملے گا وہ مر حوم جس نے ساری زندگی اِب سب کی خوشیوں اور خواہشوں کا احترام کر نے میں گزاری یہ اُس کو زمین کے حوالے کر کے اب کھا نے پر جھپٹنے کے لیے تیار تھے پھر کھانا کھل گیا بھا ئی صاحب مر حوم کی دولت کا استعمال کر رہے تھے لو گ بر یا نی اور کو لڈ ڈرنکس پر ٹوٹ پڑے اِسطرح جیسے کسی شادی یا خوشی کے فنکشن پر آئے ہو ں میں انسانوں کوانسانیت کے بہت نچلے حصے میں جانوروں کی طرح رینگتے ہو ئے دیکھ رہا تھا کہ جس طرح کو ئی مر جا ئے تو دوسرے جا نور اُس کے جسم کو اُدھیڑنا شروع کر دیتے ہیں یا گدِھیں اور دوسرے جا نور کسی بیمار جانور کی مو ت کا انتظار کر تے ہیں کہ کب یہ مر ے اور کب یہ اُس کے جسم کو نو چیں اور پھر اِس با ت پر لڑائی کہ ہمیں صرف چاول دئیے جا رہے ہیں گو شت نہیں پھر بھا ئی صاحب میری طرف بڑھے کہ جنا ب آپ کے لیے خصوصی کھا نا لگا یا جا رہا ہے وہ کھا نا کھلا کر مجھے بھی اپنی ٹیم کا حصہ بنا نا چاہتا تھا اُس کی حرکتیں دیکھ کر میرا دم گھٹنا شروع ہو گیا مجھے گھن آرہی تھی میری سانسیں رک رہی تھیں میں بدلتے رنگوں کو دیکھ کر دکھی ہو گیا تھا میں بھا گ کر گھر سے با ہر نکلا کیونکہ وہاں مجھے انسان کم اور مر دار خور جانور زیادہ نظر آرہے تھے ۔
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956