تحریر : رشید احمد نعیم
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر اس خبر نے دھوم مچائے رکھی لاہور: انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس نے صوبہ بھر کے صحافیوں کی فہرستیں اور فون نمبرز طلب کر لئےـآئی جی پنجاب نے پنجاب کے 36 اضلاع سے 5 ستمبر کو ڈی پی او آفس کے پی آر او کو لاہور میں طلب کرلیا اور ان کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ تمام اضلاع کے نیوز چینلز اردو اور انگلش اخبارات سے وابستہ صحافیوں کے نام، ادارے کے نام اور انکے فون نمبرز کی فہرستیں بناکرلائیں، یاد رہے تمام رپورٹرز کی انکے ادارے تصدیق کریں گے’ تصدیق نہ ہونے کی صورت میں یا غلط کوائف دینے پر متعلقہ صحافی جعل سازی کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
تمام شہروں کے پریس کلب رجسٹرڈ کروانا اور پریس کلب کے تمام ممبران کی صحافتی تصدیق لازمی قرار دے دی گئی ہے، کوئی بھی پریس کلب کسی غیر تصدیق شدہ صحافی کو ممبر رکھنے کا مجاز ہرگز نہیں ہوگا اور رجسٹرڈ پریس کلب کی ممبر شپ اور مصدقہ ادارتی پریس کارڈ/ اتھارٹی لیٹر کے بغیر کسی صحافی کو حکومتی/ غیر حکومتی اداروں میں رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہو گی مگر اس خبر کی حقیقت کیا ہے ؟؟؟ ممتا ز صحافی سید بدر سعیدمصنف : صحافت کی مختصر تاریخ ،قوانین،و ضابطہ اخلاق کی زبانی سنیے دو چار دن سے کافی دلچسپی سے وہ خبریں پڑھ رہا ہوں جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پولیس پریس کلبس اور یونینز کے معاملات پر اثر انداز ہونے لگی ہے۔
صحافیوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ پولیس ہی ان کی سکروٹنی کرے گی ،اداروں سے ان کی تصدیق کروائے گی ، غیر رجسٹر پریس کلبس کو بند کروا دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ خبریں پولیس کے پنجاب بھر سے آئی جی آفس لاہور آنے والے پی آر اوز کی ایک ورکشاپ کی بنیاد پر پھیلائی گئی تھیں۔ چونکہ اس بار قاصد کی جگہ میں بقلم خود اس میٹنگ میں موجود تھا اس لئے میری ان خبروں میں دلچسپی معمول سے زیادہ رہی۔ حضور والا کہانی صرف اتنی سی تھی کہ خاکسار سمیت چند صحافیوں نے ہی پولیس کے اعلی افسروں کی توجہ اس جانب دلائی تھی کہ پولیس کے پی آر اوز اور صحاافیوں کے درمیان کمیونی کیشن گیپ ختم ہونا چاہئے۔
اس لئے اس میٹنگ میں ہمیں بھی بلایا گیا۔ ہم نے ہی یہ تجویز دی تھی کہ صرف لاہور ، فیصل آباد اور ملتان ہی میں صحافی نہیں ہیں بلکہ نامہ نگار ، نمائندے اور علاقائی رپورٹرز کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے ہی پولیس پی آر اوز سے کہا تھا کہ آپ کے پاس اپنے اپنے علاقے یا ڈسٹرکٹ کے ہر صحافی کا رابطہ نمبر ہونا چاہئے اور صرف رابطہ نمبر ہی نہیں بلکہ آپ ان سب کو ذاتی طور پر بھی جانتے ہوں تاکہ ان کے مسائل حل ہو سکیں۔(لسٹیں منگوانے والی کہانی کی بنیاد خاکسار کا یہی مشورہ بنا تھا)۔ پریس کانفرنس اور دیگر خبروں کے حوالے سے پسند نا پسند کا چکر ختم ہونا چاہیے۔ آپ کا کسی نامہ نگار سے اختلاف ہو تب بھی بطور صحافی اس کو عزت ملنا اس کا حق ہے۔
یہ بھی عرض کی تھی کہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی تھانے کچہریوں میں صحافیوں کے مسائل حل کروانے میں بھی پی آر اوز کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور یہ گستاخی بھی ہماری ہی تھی کہ اعلی پولیس افسران سے درخواست کی کہ پولیس پی آر اوز کا صحافیوں سے تعلق ایسا ہونا چاہئے کہ اگر کسی صحافی کو کوئی خبر یا معلومات درکار ہوں تو آدھا صحافی یعنی پی آر او محکمانہ سطح کی معلومات اس سے شیئتر کرے اور خبر تیار کرنے میں صحافی کی مدد کرے۔
ہم نے ہی یہ بھی کہا کہ پولیس اور سحافیوں کے درمیان ایسا ورکنگ ریلیشن شپ ہونا ضروری ہے کہ پولیس کو کسی خبر کی تردید بھیجنے کی ضرورت نہ رہے بلکہ پی آر اوز خبر کی انکوائری کروا کر پہلی خبر میں ہی صحافی کو بتا دیں کہ خبر درست ہے یا غلط۔ یہ بھی کہا کہ جبر اور دبائو سے کبھی بھی خبر نہیں رک سکتی۔ اس کی بجائے خبر نشر ہونے پر انکوائری کلچر کی ضرورت ہے اگر خبر درست ہو تو فورا ایکشن لیا جائے۔ خبر غلط ہو تو صحافی کے خلاف جانے کی بجائے اس کے ساتھ مل بیٹھ کر ڈسکس کیا جائے تا کہ سسٹم ٹھیک ہو۔اس جانب بھی توجہ دلائی کہ صحافیوں اور پولیس کے درمیان لاٹھی گولی اور احتجاجی کلچر کی بجائے ایسا پروفیشنل تعلق ہونا چاہئے جس میں صحافی بنا کسی خوف کے ڈی سی او آفس اور تھانوں میں بیٹھا چائے پی رہا ہو۔
میں نے ہی یہ بھی کہا تھا پولیس پی آر اوز صحافیوں کو دفتر بلا کر ہی افسر نہ بنیں بلکہ ڈیوٹی ٹائمنگ کے بعد ان کے دفاتر جا کر دوستانہ ماحول میں ان کے مسائل ڈسکس کریں۔ اورجناب عالی ہماری گستاخی یہ تھی کہ ہم نے اعلی پولیس افسران سے یہ گزارشات کیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے پنجاب کے تمام اضلاع سے پی آر اوز کو بلوا کر میٹنگ ارینج کروا دی۔۔۔ لاہور آئی جی آفس میں ہونے والی اس میٹنگ کی بنیاد پر پریس کلبس اور صحافیوں کی سکروٹنی کی خبر جھنگ سے ایک صحافی نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھی جس کی وجہ وہاں کے مقامی پریس کلب اور صحافی گروپس کے ذاتی جھگڑے تھے۔
حیرت یہ ہوئی کہ ہمارے بعض اخبارات نے وہ خبر کسی تصدیق کے بنا سوشل میڈیا سے اٹھا کر شائع بھی کر دی۔ میں جان بوجھ کران دوستوں سے سورس کا پوچھتا رہا تو کسی کے پاس بھی خبر کا کوئی سورس نہیں تھا بلکہ مجھے فلاں دوست نے بتائی ایسا جواب ہی ملا۔ تحقیقاتی صحافت تو پہلے ہی کم کم ہے اب تو روایتی صحافت کا بھی یہی حال ہے۔ سچ کہوں تو یہ خبریں ایسے پھیلیں کہ اگر میں بقلم خود اس میٹنگ میں نہ ہوتا تو انہی خبروں کو سچ مانتا۔ دوستوں کو یاد ہو گا کہ جب سیون نیوز کے ساتھیوں کو ملازمت سے نکالا گیا تو میں اس صبح پیمرا کے دفتر ہی تھا جس روز پیمرا نے 7 نیوز کو اس مسئلہ پر وارننگ لیٹر جاری کیا تھا اور اگلے روز پنجاب یونین آف جرنلسٹ دستور کی جانب سے 7 نیوز کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی ہم نے ہی کیا تھا۔
اب چھوٹے شہروں میں پولیس اور صحافیوں کے درمیان جھگڑوں کی خبروں کے بعد پنجاب پولیس کے تمام پی آر اوز کی ورکشاپ کی تجویز بھی ہمی نے دی تھی کہ صحافی کہیں بھی ہو اس کو عزت ملنی چاہئے۔ سوچتا ہوں ان خبروں کے بعد پولیس آفیسر ہم سے سوال کرتے کہ اب بتائو کیا بے بنیاد خبریں جاری کرنے والوں کے لئے بھی ورکشاپ ضروری ہے تو ہمارے پاس کیا جواب ہوتا۔ یاد رہے پولیس کسی بھی صورت پریس کلبس کے اندرونی معاملات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔
صحافیوں کی سکروٹنی ، ان کی ممبر شپ اور اداروں سے تصدیق صحافیوں کا اندرونی معاملہ ہے جو پریس کلب اور صحافتی اداروں کو ہی حل کرنا ہے۔ فی الحال میرے ساتھ بیٹھے صحافی قاسم علی کو مبارک باد دیجئے۔ بول کی جانب سے اس کے واجبات بھی ملنے والے ہیں ٭نوٹ ٭تصاویر میں ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی آپریشن پنجاب سامنے ہیں۔ اے آئی جی آپریشن پنجاب تقریر کر رہے ہیں۔ ( سید بدر سعید مصنف : صحافت کی مختصر تاریخ ،قوانین،و ضابطہ اخلاق)
تحریر : رشید احمد نعیم